معاشرتی ڈھانچہ پر توجہ دینے کی ضرورت

زندگی قدرت کی عطا کردہ گراں قدر نعمت ہے جس کی قیمت ہر فردبشر پر عیاں ہے اوراس کی حفاظت ہر آدمی پرواجب ہے،اگر وہ اس کی ناقدری کرتے ہوئے اس کی حفاظت سے رو گردانی کرتاہے تو یہ قدرت کی عطا کردہ نعمت کے ساتھ ظلم اور بغاوت کےمترادف ہے ۔اسلام میںہر نشہ آور چیز حرام ہے اور ان سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔شراب،چرس ،افیون اور دسرے تمام نشیلی چیزیں و نشہ آور ادویات کے ساتھ ساتھ تمباکو وسگریٹ وغیرہ جوکہ انسانی صحت کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں،کو استعمال کرنے کی نہ صرف ممانیت ہے بلکہ انہیں ناپسندیدہ قرار دیاگیا ہے۔مگر افسوس! آج کے اس جدید دور کے زیادہ تر لوگ خصوصاً نوجوان نسل اور نابالغ بچےانہی حرام ، ناپسندیدہ اور مضرصحت چیزوںکے حصار میں جگڑے ہوئے ہیں اور اپنی متاعِ حیات سے بے پرواہ ان چیزوں کو قند سمجھ کر بے دریغ استعمال کرکے ہلاکت و بربادی کے گھاٹ اُتر رہے ہیں۔جبکہ اس معاملے میں معاشرے کی عموماً اور والدین کی خصوصاً سرد مہری سب سے بڑا لمحۂ فکریہ ہے،کیونکہ وہ اس بات کو نظر انداز کررہے ہیںکہ وادیٔ کشمیر میں منشیات کا استعمال خطرناک حد تک جا پہنچا ہےاور اعداد و شمار کے مطابق اس سے متاثرہ نوجوانوں کی تعداد بلند ترین سطح پر ہےاور یہ خوفناک بُرائی پورے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی ہے، اگر اس بُرائی کی طرف فرضِ عین سمجھ کر توجہ نہ دی گئی تو معاشرے کا مستقبل انتہائی درد انگیز اور خوفناک صورت ِحال کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔بے شک کشمیر خطے میں کئی دہائیوںتک نامساعد حالات ،ہنگاموںا ور تنازعات کی صورت حال نے بے یقینی اور تناؤ کاجو ماحول پیدا کیااور تشدد، بڑے پیمانے پر بے جاہلاکتوں،بے پناہ مالی و جانی نقصانات اور عدم استحکام کاجو سلسلہ جاری رہا،اُس نے ہماری نوجوان نسل کو بُری طرح متاثر کرکے نفسیاتی مسائل سے دوچار کردیا ، جبکہ بے کاری، بے روز گاری اور مالی مشکلات سے دوچار ہونے سے بھی یہاں کی نوجوان نسل کے ذہن پر منفی اثرات پڑتے رہےاور وہ مایوسی، ناامیدی اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوکر نہ صرف مختلف بُرائیوں اور خرابیوں کی طرف رُخ کرتے گئےبلکہ ذہنی تنائو و اضطرابی کیفیت،مایوسی اور پژ مردگی سے بچنے کے لئے اپنے عزائم کو توانا نہ رکھ سکےاور بہک کرمنشیات کے استعمال کا سہارا لینے کے مائل ہوگئے۔ بغور دیکھا جائے تو آ ج بھی ہماری نوجوان نسل خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے معاشی اور روزگار کے مواقع مشکل و محدود ہی نہیں بلکہ نایاب ہیں اور اس منظر نامے میں نوجوان نسل اپنے مستقبل کو تاریک دیکھ کر مایوسی کے عالم سے باہر نہیں آرہے ہیںاوروہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے عزائم کو توانا رکھنے سے ہی وہ درخشاں ستارے بن سکتے ہیں۔وہ اس بات سے غافل ہوچکے ہیںکہ زندگی صرف کامیابی کا مجموعہ نہیں بلکہ ناکامی بھی اپنی جگہ مسلم ہے، جبکہ ہر ناکامی کے بعد کامیابی ملتی ہے، ہر مشکل کے بعد آسانی بھی ہوتی ہے اورسُلگتے مسائل ہی قدموں کو تیز دوڑاتے ہیں۔اس لئے اُن کے لئے لازم ہے وہ گلے شکوے کرنا چھوڑیں،والدین سے حسنِ سلوک کریں،رشتہ داروں کا احترام کریں،بے راہ روی، آوارہ گی و جرائم سے دور بھاگیںاور منشیات سے پرہیز کریںاور اسے ہر حالت میںناجائز اور حرام سمجھیں۔اکثر نوجوان ان باتوں کو نہیں سمجھتے ہیںاور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ اپنا دماغی توازن تک کھو بیٹھتے ہیں۔بے شک جب کوئی کام انسان کی مرضی و منشا کے خلاف سرزد ہو تو یقیناً انسان تعیش میں آتا ہے اور بعض اوقات غصے کی حالت میں وہ کچھ کر بیٹھتا ہے،جس سے اُس کی زندگی بن جاتی ہے۔گویا گھرکے ایک عام فرد سے لے کر معاشرے کے ایک اہم رکن تک ہر شخص کو خلافِ معمول امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کامیاب شخص وہی کہلاتا ہےجو ہر پریشانی ہنسی خوشی برداشت کرتارہتاہے اور ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو صبر کی دولت سے مالا مال ہو،جس کاعزم توانا ہو،جسے اپنی ہمت کے مطابق محنت و مشقت کرنے کی تمنّا ہو ،اور اپنے کام میں آگے بڑھنے اور دوسروں سے آگے نکلنے کی جستجو ہو،خیر! معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشرتی ڈھانچے پر توجہ دیں،اجتماعی طور ایک پلیٹ فارم پر آکرمایوسی میں مبتلا نوجوان نسل کی دلجوئی اور رہبری کریںجبکہ حکومت کے لئے لازم ہے کہ وہ بے روزگار نوجوانوںکی پریشانی اور معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لئےہر ممکن اقدامات اٹھائیں جس سے یہاں کا بگڑا ہوا معاشرتی ڈھانچہ سنورسکے اور زندگی کی قدر و قیمت بحال ہوجائے۔