غـزلـــیات

زیست میری اُداس رہتی ہے
مثلِ شعلہ وہ پاس رہتی ہے
تجھ سے ملتا ہوں میں بلا ناغہ
پھر بھی ملنے کی آس رہتی ہے
چُھو لیا جب سے اس کی زلفوں کو
میرے ہاتھوں میں باس رہتی ہے
مجھ کو ملتی ہے اس کی خوشبو جو
وہ فقط آس پاس رہتی ہے
نور دیتا ہے میری آنکھوں کو
میری کھڑکی میںگھاس رہتی ہے
وہ بڑا ہے یہی سمجھتا ہوں
جس کے گھر کوئی داس رہتی ہے
جو ملا ہے وہ کم نہیں پھر بھی
اور زیادہ کی آس رہتی ہے
دیکھتا ہوں زمانے کو جب بھی
وہ طمع میرے پاس رہتی ہے
عشق کرتا ہے شاذؔ جاناں سے
یہ ادا بارہ ماس رہتی ہے

خطاب عالم شاذؔ، مغربی بنگال
رابطہ نمبر 8777536722)
(افاعیل : فاعلاتن مفاعلن فعلن )

سب یہاں اپنا چمن ڈھونڈتے ہیں
ہم مگر اپنا بدن ڈھونڈتے ہیں

جن کے سر پر ترا سایا نہیں ہے
اوڑھنے کو وہ کفن ڈھونڈتے ہیں

فتویٰ منصف نے سنایا بھی نہیں
یار تو دار و رسن ڈھونڈتے ہیں

کون ڈرتا ہے ترے ہجر سے اب
ہم تو فرقت میں بھی فن ڈھونڈتے ہیں

درد کے اس بے جا دشتِ بلا میں
دل جلے سایہ فِگن ڈھونڈتے ہیں

ساختہ چہروں میں کس سادگی سے
لوگ بے ساختہ پن ڈھونڈتے ہیں

توصیفؔ شفیع

خاموش ہیں سب آہ و بُکا تک نہیں آتی
غزّہ کے اسیروں کی صدا تک نہیں آتی

ملبے سے نکلتی ہوئی بچی نے پکارا
قبروں میں پڑے، پھر بھی قضا تک نہیں آتی

سر گشتگی مت پوچھ ان آشُفتہ سروں کی
مشتاقِ شہادت ہیں فنا تک نہیں آتی

بارود کی بُو اوڑھے ہیں مسموم فضائیں
تازہ کسی کھڑکی سے ہوا تک نہیں آتی

مظلوم بظاہر ، تو بنے پھرتے ہیں قاتل
لعنت ہے، ندامت کی ادا تک نہیں آتی

نازاں ؔکی تو بستی کو کِیا خاک ، جلا کر
پر آنچ ترے بندِ قبا تک نہیں آتی

جبیں نازاںؔ نئی دہلی
[email protected]

چراغ ِ عشقِ کو جلا رہا ہوں
تجھ سے ہی یہ د ل لگا رہا ہوں
یہ نفرتیں ساری اب دور ہونگی
میں پودا عشق کا اُگا رہا ہوں
یہ گلشن ِ عشق ہے اے یارو
اس کے گلوں سے دل کو سجا رہا ہوں
یہ بحر ِ عشق تو مچل رہا ہے
میں عشق تم کو سِکھا رہا ہوں
محبت مجھ میں اچھل رہی ہے
سنو میں سید ؔ بتا رہا ہوں

سیدؔ باشا, طلبہ دار الھدی کیرلا

انسان چل رہے ہیں جو دولت کی راہ میں
بھٹکیں گے وہ ہمیشہ ہی غربت کی راہ میں

گم نامیوں کی دھند میں رہتا ہے وہ سدا
چلنا جسے پسند ہے شہرت کی راہ میں

پھولوں کی راہ مجھ کو ابھی تک ملی نہیں
کانٹوں پہ چل رہا ہوں محبت کی راہ میں

افسوس ہے کہ وہ مجھے پہچانتا نہیں
چلتا رہا ہوں جبکہ میں قربت کی راہ میں

سب کچھ ملے گا مجھ کو عبادت میں اے ثمرؔ
میں اپنا گھر بناؤں گا جنت کی راہ میں

سمیع احمد ثمرؔ ، سارن بہار
رابطہ 7488820892

دُعا
زمانے کا ستایا ہوں تیرا بندہ بہت مجبور ہے
مجھ پہ اپنا فضل فرما دل بہت رنجُور ہے

تیری چوکھٹ پہ نہ آئوں تو کِدھر جائوں گا میں
بخش دے میری خطائیں دل غموں سے چُور ہے

غفلتوں میں سو گیا ہوں ظُلمتوں میں ہوں پڑا
اب تُو کر دے دُور ظُلمت دل بڑا مغرور ہے

میرے مولاٰ ! کر عطا ہم کو صِراطِ مُستقیم
ہم بھٹک جائیں نہ پھر سے گر تمہیں منظور ہے

میرا جینا ہوا ہے دوبھر زمانے کے حوادِث سے
ہو مَداوَا میرے غم کا یہ درَد بڑا ناسُور ہے

یا الہیٰ ! شان تیری ہو بیاں ممکن نہیں
کہاں مُشتاقؔ کو تیری وصفوں کا مقدور ہے
خوشنویس میر مشتاق ؔ
ایسو اننت ناگ ، کشمیر
[email protected]

غـــــزلـــــــــیــات
کچھ دہشتِ فردا ہے نہ امروز کا کچھ غم
ہر حال میں خوش حال رہے مست رہے ہم
ہاں ٹھوکریں کھا کھاکے سنبھل جاتا ہے انساں
ہر لغزشِ پا میری بھی رہبر سے نہیں کم
ساقی ترے پیمانے میں وہ بات نہیں ہے
پیمانہ ٔ غم دیکھ کر ہوتا ہی نہیں کم
بے ساختہ افزائشِ غم پر تجھے ہمدم
ہم عالمِ وحشت میں پکارا کئے ہر دم
دیکھے نہیں جاتے مجھے اُس شوخ کے آنسو
یارب مجھے دیدے میرے محبوب کے سب غم
شاید کوئی روتا ہے تری یاد میں راشدؔ
دامانِ تصورہے میرا آج بہت نم

راشد احمد راشدؔ،حیدر آباد
9951519825

مرا ہمدم مرا ہو کر شناسائی نہیں کرتا
جلا کر رکھ دیا ہے دل شکیبائی نہیں کرتا

تو اپنے زورِ بازو سے کرامت کر سکے تو کر
یہاں کوئی مسیحا اب مسیحائی نہیں کرتا

لگی ہے آگ اُلفت کی یہ وہ سمجھے کہ میں سمجھوں
دلِ عاشق زمانے کو تماشائی نہیں کرتا

چھپا کر بے بہا موتی تلاطم خیز موجوں میں
کبھی ظاہر سمندر اپنی گہرائی نہیں کرتا

بہاروں کی تمنا رکھ دلِ ناشاد میں ہر دم
یہ گُل وہ ہے کسی گلشن کو صحرائی نہیں کرتا

خدا جانے وہ کس کے خوف سے خاموش رہتا ہے
مرا شائق مرے فن کی پذیرائی نہیں کرتا

زمانے کو ہوئے ازبر یونہی کیسے سخن میرے
ترا کہنا کہ گوہر ؔبزم آرائی نہیں کرتا

گوہر بانہالی،رام بن جموں
9906171211

خلوصِ دِل سے بزمِ دِل کو اور مُشکبار کر
نگارہِ تابدار کو بھی اور تابدار کر
خیالِ یار سے جِئے ہیں اور جی رہے ہیں ہم
مثالِ آب زندگی کو اور آبشار کر
یہ ڈھیر ساری قدغنیں ہیں آگ و آہن کا سماں
کہ ہاتفِ غیبی کہے جو اور انتظار کر
فروزاں ہیں فلک پہ بھی حیاتِ نَو کی قندیلیں
کہ باطن کی پُکار پر بھی اور اعتبار کر
جو عرفان رنج و غم کا ہے، بہت بڑی یہ بات ہے
اِسی سے اپنے دِل کو اور، اور پُر بہار کر
قلم سے قلم کار ہے، اِسی سے شاہکار ہے
قلم سے ہلکا بوجھ کر کے اور آشکار کر
فروغِ عشق سے کِھلی ہیں دل کی وادیاں بہت
اِسی متاع سے دل کو اور، اور برگ و بار کر
یہی وہ جذبہ خیر ہے جنہیں عطا کرے ہے رب
انہیں سلام میرؔ کر کہ اور بار بار کر

ڈاکٹر میرؔ حسام الدین
گاندربل کشمیر

حادثاتاً حادثے کا جب سے مارا ہوگیا
کیا نِطامِ زیست درہم میرے یارا ہوگیا
شکر ہے لیکن حبیبِ دو جہاں کی مہر سے
بے سبب جینے کا پھرمجھ کواشارا ہوگیا
بعدِ مُدت پھر سے ممکن ہوگیا دیدارِ شہر
دیدنی گلیوں کا پھر دیدے نظارا ہوگیا
قلبِ خستہ ہوگیا پھر مائل ِجشنِ طرب
تُندخُو بادِ صبا سے جب کنارا ہوگیا
پھر سے ممکن ہوگئی احباب سے اب راہ ورسم
پھر تصور سے میں اُن کے آشکاراہوگیا
عُود آئی حوصلوں میں شانِ برنائی سی پھر
یعنی سمجھو پھر سے زندہ میں دوبارا ہوگیا
بھول بیٹھا تھا میں یکسر معنیٔ کیف و طرب
پھر متاع شوقِ فردا پہ اِجارا ہوگیا
آشنائی پھر سے اخبارات سے ممکن ہوئی
پھر سے قرطاس و قلم باعث سہارا ہوگیا
دامن اُمید عشاقؔ پھر سے ہوگا استوار
پھر کہونگا خود سے میں ولہ میں دارا ہوگیا

عشاق ؔ کشتواڑی، حال جموں
9697524469