غزلیات

 

اب کے گاؤں آنا ہو تو رُت اُجلا کر لے آنا
چھاؤں لے کر آئی تھی اب دھوپ اُٹھا کر لے آنا

کب تک بستی والے رستہ عید کا تکتے رہ جائیں
رنگِ شفق ماتھے پر روشن چاند سجا کر لے آنا

موسم ہے برسات کا اُترا بادل چھائے آنکھوں میں
سرخ دوپٹہ نیلی چادر ساتھ سُکھا کر لے آنا

دھند نے ڈیرہ ڈالا ہے ہر سمت ہے چادرکہرے کی
دھوپ کاٹکڑا ہاتھ پہ مل کے راہ سجا کر لے آنا

ہر کھڑکی سے گھور اندھیرا جھانک رہا ہےکمروں میں
مٹھی بھر جگنو یا کوئی شمع جلا کر لے آنا

عقل نے شیداؔ رسوائی کی زنجیروں سے باندھا ہے
دل نے تو صد بار کہا یہ ،جاکے بھگا کر لے آنا

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087

وقت اور حالات سے چپکا ہوا
غم ہے سب کی ذات سے چپکا ہوا
میں تجھے کیسے کروں دل سے جدا
تو مرے جذبات سے چپکا ہوا
زندگی بھی ضابطوں کا جال ہے
اور میں عادات سے چپکا ہوا
کوئی سورج ڈھونڈ لانے کے لئے
ہے اندھیرا رات سے چپکا ہوا
مرحلے تخلیق کے جو سات ہیں
عشق ہے اُن سات سے چپکا ہوا
زندگی بھر تم چھڑا سکتے نہیں
ہاتھ تیرے ہاتھ سے چپکا ہوا
اے خدا تو ہی بتا دے کب تلک
میں رہوں آفات سے چپکا ہوا
آدمی کو چاہیے ممتازؔ وہ
بس رہے اوقات سے چپکا ہوا

ممتازؔ احمد
بکوری،راجوری، جموں

واقف نہیں ہیں اب بھی ادب کے ہُنر سے ہم
اشعار پھر بھی لکھتے ہیں خونِ جگر سے ہم
محروم جب سے ہو گئے برگ و ثمر سے ہم
بیکار سے کھڑے ہیں پرانے شجر سے ہم
ہے دوستی کا تب ہی مزا میرے دوستو
تم دو قدم اُدھر سے چلو، دو، اِدھر سے ہم
کیوں دیکھتا ہے ہم کو حقارت سے آجکل
کیا اتنے گر گئے ہیں جہاں کی نظر سے ہم
ہم کو پتہ ہے موت تو آنی ہے ایک دن
بولو کیا جینا چھوڑ دیں مرنے کے ڈر سے ہم
جب بھی تمہاری یاد ستاتی ہے جانِ من
اَب بھی لپٹ کے روتے ہیں دیوار و در سے ہم
اچھے بُرے کی ہم کو بھی اکرمؔ تمیز ہے
کیوں دیکھیں خود کو یار تمہاری نظر سے ہم

اکرم نگینوی
احمدآباد، گجرات

برباد میری جان خدارا نہ کیجیے
نازک ہے دل تو اس کا تماشا نہ کیجیے
یہ چار دن کی زندگی باہم گزار لیں
لللّہ مجھ کو خود سے یوں تنہا نہ کیجیے
کب آہ اس کی عرش سے ٹکرائے کیا پتہ
دل یوں کسی غریب کا توڑا نہ کیجیے
تیرے سوا کسی کی بھی چاہت نہیں رہی
تم کو بھی مجھ سے عشق نہ کرنا ،نہ کیجیے
ممکن ہے اپنا ہوش بھی کھودوں گا ایک دن
اس طرح اپنی زلف سنوارا نہ کیجیے
اے ناخدائے عشق بڑی آس ہے مجھے
یوں مجھ کو بیچ لہروں میں چھوڑا نہ کیجیے
جس نے اذیتیں دی تمہیں جا بجا سنو
ایسے رفیقؔ کو دل میں رکھا نہ کیجیے

میر رفیق
ناجن سوناواری، بانڈی پورہ

یہی خوشی کی بات ہے کہ زندگی میں پیار ہے
ہزار غم کے درمیاں بھی ، دل کو کچھ قرار ہے
بڑی اُمید ہے کہ اُن سے مل کے کچھ کہیں گے ہم
مگر ملیں گے کب کہاں اسی کا انتظار ہے
وفا مری سرشت ہے جفا ہے ان کا مشغلہ
مجھے یہ اختیار ہے انہیں وہ اختیار ہے
انہیں ہے یہ یقیں کہ عقل ، ہر قدم پہ رہنما
میرا خیال ہے جنون ، عقل پر سوار ہے
جو حکمراں ہے شہر کا، ہے قاتلوں کے ساتھ وہ
جو قتل ہو رہے ہیں ان کا کون غم گسار ہے
گلہ نہیں کہ ان سے مل سکے نہ ہم کبھی مگر
جو حق کی پوچھئے تو ان پہ جان و دل نثار ہے
میں جانتا ہوں وہ خفا ہے مجھ سے عارفؔ آج کل
مگر مجھے یقین ہے کہ اس کو مجھ سے پیار ہے

عرفان عارفؔ
اسسٹنٹ پروفیسر اردو، جموں
موبائل نمبر؛9682698032

کوئی ہمدرد ، کوئی مونسِ جاں تو نہیں ہے
درد دل کے واسطے کوئی اِنساں تو نہیں ہے

شکستہ دل تو متاع ِ درد سے مالا مال ہے میرا
کسی کا درد دل میں بسانا کوئی آساں تو نہیں ہے

اب کہ زمانے کی سِتم ظریفیوں سے باخبر ہوں میں
جب کوئی درد ہی مجھ سے پنہاں تو نہیں ہے

تقاضائے عہد وپیماں نہ ہو پورے جس سے
اُس کا کوئی دین ، کوئی ایماں تو نہیں ہے

لے اُڑا آج خیالِ یار خود سے بھی پرے مجھکو
پیروں تلے زمین سر پہ کوئی آسماں تو نہیں ہے

یہ جو چہروں پہ ہمدردی کے نِقاب اُوڑھے مشتاقؔ
تیرا کوئی دوست، کوئی قدرداں تو نہیں ہے

خوشنویس میر مشتاق
ایسو ، اننت ناگ کشمیر
[email protected]

مجھ سے نہ کچھ کہا سُنا تب
عشق میں مخاطب ہوئے وہ جب

اظہارِ محبت میں میری مصلحت ہے
جیسے بے تاب دل یہ سِلے لَب

رہتا تھا دل پہلو میں کبھی
اَب رہتے ہیں درد و کرب

چلے آتے ہیں جانے کہاں سے
اور پھر کہاں چلے جاتے ہیں سب

بیٹھے ہیں صورتؔ ابھی تک اُس میں
جس محفل سے اُٹھ چکے ہیں سب

صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

میرا بدخواہ ہی میرے کام آیا ہے
عزیزوں کا تو سازش میں نام آیا ہے

آگ ہی آگ ہے یہاں ہر سُو
شعلہ آخر یہ کس نے بھڑ کایا ہے

پھول ہیں سب خزان کی زد میں
گُل مرے دل کا پھر بھی مُسکایا ہے

بدلا بدلا سا ہے کچھ بادلوں کا رُخ
کیا کوئی نیا پیام لایا ہے

قادریؔ مانگا تھا جو رب سے تُو نے
ایسا لگتا ہے منظور ہوکے آیا ہے

فاروق احمد قادری ؔ
کوٹی فرید آباد ڈوڈہ