غزلیات

حاصلِ زیست جو ہوگا وہ حضر باقی ہے
شام سر پر ہے کھڑی اور سفر باقی ہے

ضبطِ تحریرمیں لایا ہوں میں ساری روداد
بات جو لکھنی تھی وہ لکھدی مگر باقی ہے

سلسلہ سانس کا چلتا ہے یہ ہے تیرا کرم
جو مری کایا پلٹ دے وہ نظر باقی ہے

وہ بھی کیا خواب تھاجس خواب میں دیکھا تھا تُجھے
کیا ملاقات تھی،اب تک وہ اثر باقی ہے

آب و گِل کے ترے زنداں میں گزارےدن چار
ہےجہاں صدیوں ٹھہرنا وہ نگر باقی ہے

خوب چرچے ہیں کہ آیا ہے تغیّر ہر سُو
منتظر جسکا ہے بسملؔ وہ سحر باقی ہے

خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی، راجوری، جموں
موبائل نمبر؛9622045323

منتظر آنکھوں کا دروازہ مقفل ہوگیا
شام ہوتے آخری منظر بھی اُوجھل ہوگیا

وقت سے جانی بساطِ آرزو کی خستگی
کل پہ چھوڑا تھا جسے وہ آج بھی کل ہوگیا

ایک ہی آنسو تھا لا کر رکھ دیا قرطاس پر
ایک افسانہ ادھورا تھا ، مکمل ہوگیا

خواب دیکھا تھا ستی سر پر شعاعوں کا نزول
سرخ جس دن بارشوں میں کوئی آنچل ہوگیا

رقص جب کرنے لگے ہم شب کی تنہائی کے ساتھ
زخم کُھل کر مسکرائے، درد پاگل ہوگیا

ابرِ غم کے آبلے پُھوٹے ہیں پلکوں پر یہاں
ایک صحرا تھا مری آنکھوں میں جل تھل ہوگیا

عشق کی اس سادگی پر کیا علی شیداؔ کہیں !
مسئلہ تھا زندگی کا موت سے حل ہوگیا

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087

آہ و زاری میں اگر دل مبُتلا ہو جائے گا
سنگِ در بھی خُود نُمائی میں خُدا ہو جائے گا

اہلِ دِل محشر سےپہلے مُردگاں ہو جائیں گے
عِشق جیسا حادثہ جو جابجا ہو جائے گا

ہم دلی اور ہم خیالی کیوں رہے اب شہر میں
شہر کا ہر فرد جب یوں پارسا ہو جائے گا

کیوں تمنائے سکونِ دل کرے اب دل مرا
جب سکونِ دل بھی دل کی اک سزا ہو جائے گا

نارِ دوزخ سُنتے آئے ہیں زمانے سے خلشؔ
سنگِ مرمر سوزِ غم میں کوئلہ ہو جائے گا

راحتِ دل کی تمنا کیوں بھلا کوئی کرے
دردِ پیہم ہی اگر یہ دِلرُبا ہو جائے گا

آتشِ غم کو بُجھانے کیلئے جائیں کہاں
جب سمندر ہی خلِشؔ یہ دل جلا ہو جائے گا

خلشؔ
اسلام آباد ، اننت ناگ کشمیر
[email protected]

آج تک میری خاطر تو کیوں نا رُکا
اے گزرتے ہوئے وقت اتنا بتا؟
ہر کسی کی خطا کو کیا درگزر
ہر کسی نے کہا تھی یہ تیری خطا
رو پڑے میرے ٹکڑے میرے پارچے
اور پھر یوں ہوا میں نے سجدا کیا
زندگی دو گڑھی رُک میری بات سن
بھول کر مجھ کو آخر تجھے کیا ملا
پھر اچانک وہ میرے گلے لگ گیا
میں نے سوچا تھا اس سے کرونگا گلہ
عاشقی سلسلہ المیہ سانحہ
داستاں ختم شد ابتدا انتہا
اکِ صدی کٹ گئی ہے تلاشِ عقیل ؔ
تلخیاں ہیں فقط پست ہے حوصلہ

عقیلؔ فاروق
بنہ بازار شوپیان
موبائل نمبر؛7006542670

اے گُل ! میں ہوں بلبل ترے اُلفت کے چمن کا
رکھتا ہوں جواں شوق اَبھی دل میں مِلن کا
کچھ سوچ بھلا نیند مجھے آئے گی کیسے
ان آنکھوں میں ہے عکس ترے حُسنِ بدن کا
خوشبو بھی مرے تن سے تیری آتی ہے پیہم
کیا کام یہاں جانِ جگر مشکِ ختن کا
میں شاعری کرتا ہوں ترے واسطے ،ورنہ
ہے وقت کہاں پاس مرے مشقِ سخن کا
کشمیری ہوں ،کشمیر مرا گھر ہے ،خبر ہے؟
شاعر نہ میں لکھنٔو کا ہوں ،دلی نہ دکن کا
شادابؔ بتا امتحانِ عشق میں تجھ کو
کیا خوف تھا دنیا میں کبھی دار و رسن کا

شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435

کہنے کو تو دریا ہوں میں
پھر بھی کتنا پیاسا ہوں میں

سب کو اپنا سمجھ رہا ہوں
دیکھو کتنا بھولا ہوں میں

بے حس و بے جان ہوں پھر بھی
تم کہتے ہو زندہ ہوں میں

آکر اپنی پیاس بجھالے
دیکھ چھلکتا دریا ہوں میں

دنيا چاہے کچھ بھی سمجھے
تم کو کیسا لگتا ہوں میں

تو ساون کا اُڑتا بادل
اور سلگتا صحرا ہوں میں

رفیقؔ مجھ کو اس کے علاوہ
سب کہتے ہیں اس کا ہوں میں

رفیق عثمانی
آکولہ مہاراشٹرا
سابق آفس سرپرانٹنڈٹBSNL

یار سجدے میں ہی تو ملتا ہے
تم کو ملنے کا گر سلیقہ ہے

تو ہواؤں سے بات کرتا ہے
آسماں میں میرا بسیرا ہے

ہر کوئی خود جدا جدا سا ہے
کون کس سے یہاں پہ بچھڑا ہے

زندگی میری کٹ رہی ہے بس
تُو بتا حال تیرا کیسا ہے

جس سفر میں نہ کوئی منزل ہو
وہ چھلاوے کا صرف رستہ ہے

زندگی تھی عیاں ترے رُخ پر
وہ کسی اور کا ہی چہرہ ہے

زخم کھائے ہیں حرف میرے اب
خون ہر لفظ سے ٹپکتا ہے

ساریہ ؔخاک کی کہانی میں
بن کے ہم کو غبار اُڑنا ہے

ساریہ سکینہ
حضرتبل، سرینگر
[email protected]

سوچتا ہوں تجھے دیکھنا چھوڑ دوں
تیری یادوں میں اب ڈوبنا چھوڑ دوں

یوں ہی رکھ کر تجھے دل میں کیا فائدہ
رات بھر کیوں مگر جاگنا چھوڑ دوں

شام کو جب میں تجھ سے ملاقات کی
پیارسے کیوں مگر دیکھنا چھوڑ دوں

یہ الگ بات اب کوئی رشتہ نہیں
دن بدن کیوں تجھے دیکھنا چھوڑ دوں

میری قسمت میں شاید نہیں رہبر یؔ
کیا خدا سے تجھے مانگنا چھوڑ دوں

محمد جبر اسلام رهبری ؔ
طالب،دارالهدی بانگتور