غزلیات

جہاں تیرا بنا ویرانۂ جاں

بیاں ہو کس طرح افسانۂ جاں

 

نہیں اُلفت وہ پہلی سی رہی اب

کہ جل کر راکھ ہے پروانۂ جاں

 

دیئے اُس نے نئے ہی روزو شب غم

مہرباں سب پہ ہے بے گانۂ جاں

 

ہے ممکن غار میں چُھپ کر پری ہو

دے اک نعرہ وہی مستانۂ جاں

 

بدن،دل، خواب، گُل سب کچھ تِرا ہے

مِرا کیا ہے فقط افسانۂ جاں

 

مشتاق مہدی

مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر

موبائل نمبر؛9419072053

 

مجھ میں جو آدم تھا جانے کیا ہــوا اس کو

جسم کے ملبے میں اب تم ڈھونڈنا اس کو

عمر بھر اس کج روا نے  بے رخی برتی

عمر بھر دیتا رہا کوئی  صدا اس کو

وہ جو تم تھے کاش مل جاتے کبھی مجھ کو

وہ جو میں تھا کاش پھر میں دیکھتا اس کو

کون مجھ میں سوچتا ہی رہتا ہے پیہم

مجھ کوفرصت ملتی میں بھی سوچتا اس کو

یہ کرشمہ ہے وہ مجھ کو مل گیا لیکن

مجھ کو یہ شرمندگی ہے میں ملا اس کو

اس کی خوشبو جو خفا ہے اس چمن سے اب

کس چمن لہراتی ہے بادِ صبا اس کو؟

یہ محبت اپنی مرضی سے ہی چلتی ہے

یہ عجب اک آگ ہے مت دو ہَوا اس کو

وہ نہ آیا لوٹ کر اس پر گِلہ کیا ہو

مل گیا ہوگا  کوئی پھر دوسرا اس کو

یاد اس کو میری صورت بھی نہیں ہے اَب

کیا دلاؤں یاد میں عہدِ وفا اس کو

 

میر شہریار

اننت ناگ

موبائل نمبر؛7780895105

 

 

سفاک بھی اتنی تو  شقاوت نہیں کرتا

بچوں کے گھروندوں سے عداوت نہیں کرتا

 

انساں ہے تو رکھ،لاج ذرا خلق خدا کی

آدم تو درندوں کی امامت نہیں کرتا

 

روداد سنائیں تجھےکیا شہر ستم کی

قاتل کو یہاں کوئی ملامت نہیں کرتا

 

ہر تارۂ زرتاب کو کر دیتا ہے اُوجھل

یہ وقت کسی سے بھی مروّت نہیں کرتا

 

بادل سے کبھی پھول سےکرتا ہے وہ باتیں

نازاؔں سے بیاں دل کی حکایت نہیں کرتا

 

جبیں نازاؔں

لکشمی نگر ، نئی دہلی

 

 

تھوڑے ادھر خراب ہیں تھوڑے اُدھر خراب

کس نے کہا کہ ہوتے ہیں سارے بشر خراب

اب عکس آئینوں میں کیوں دُھندلا دکھائی دے

آئینے ہیں خراب یا آئینہ گر خراب

جو دین کا ہوا ہے نہ دنیا کا دوستو

سمجھو اُسی نے کر لیا اپنا سفر خراب

جس پر بھروسہ کر لیا اور ساتھ چل پڑے

دیکھو نکل رہا ہے وہی معتبر خراب

مطلب پرست لوگ ہیں کیسے بتائیں ہم

اچھی ہے کس کی اور ہے کس کی  نظر خراب

بس لگتے خوشنما  ہیں سیاست کے دور میں

اونچی حویلیوں کے ہیں دیوارو در خراب

سچوں کی کر رہا تھا میں اکرمؔ حمایتیں

رشتہ ہوا ہے اُس سے اِسی بات پر خراب

 

اکرم نگینوی

احمدآباد، گجرات

 

 

تیری عظمتوں سے ہوں بے خبر

یہ میری نظر کا قصور ہے

تیری راہ گزر میں قدم قدم

کہیں عرش ہے کہیں طور ہے

یہ بجا ہے مالکِ دو جہاں

میری بندگی میں قصور ہے

یہ خطا ہے میری خطا مگر

تیرا نام بھی تو غفور ہے

یہ بتا تجھ سے ملوں کہاں

مجھے تجھ سے ملنا ضرور ہے

کہیں دل کی شرط نا ڈالنا

ابھی دل گناہوں سے چُور ہے

تو بخش دے میرے سب گناہ

تیری ذات رحیم و غفور ہے

 

مزمل معراج رضا

مظفرپور،بہار

 

 

منظر خزاں نے کیا کیا ہم کو دکھائے ہیں

چھائے کبھی تو بادل کبھی دھوپ لائے ہیں

 

وہ باغباں جو پہرے دار تھے چمن کے

کیوں اب وہی یہاں سے تبسم چُرائے ہیں

 

پت جھڑ کی حکمرانی گلشن سے ختم ہوگی

بلبل وگُل یہی اب اک آس لگائے ہیں

 

حیرت میں باغ کا یہ مالی بہت ہے یارو

کیسے خزان میں آخر گلشن مسکائے ہیں

 

جا قادریؔ ذرا تُو اور دیکھ ویرانے میں

گُل کیسے کھلکھلا کے پھر خزاں میں کَھل آئے ہیں

 

فاروق احمد قادری

کوٹی ڈوڈہ، جموں

 

 

زندگی سے اسے میں دفع کر دیا

وعدہ کر کے جو مجھ کر خفا کر دیا

 

مجھ کو تیری  محبت نہیں چا ئیے

تم نے کتنو کے دل سے دغا کر دیا

 

ز خم دل میں چھپا کر کے میں نے اُسے

مسکر ا تے ہو ئے الودا ع کر دیا

 

مجھ کو بدنا م کر کے زما نے میں ہے

خود کو عزت سے تم نے جدا کر دیا

 

جا خدا تجھ کو آباد رکھے صنم

فیضؔ جا تے ہو ئے یہ دعاء کر دیا

 

فیضل حسین فیض

دارلہدیٰ پنگنور، آندھرا پردیش