غزلیات

فلک کے چاند تاروں میں تمہارا حُسن شامل ہے
حسیں دلکش نظاروں میں تمہارا حُسن شامل ہے
لپٹتے ہیں یہ پتّے زرّد ہوکر میرے دامن سے
کہ شاید ان چناروں میں تمہارا حُسن شامل ہے
بدن پر جب بھی پڑتی ہیں مجھے مدہوش کرتی ہیں
کہ ساون کی پھواروں میں تمہارا حُسن شامل ہے
غزل ہو گیت ہو یا نظم ہو ابہام کی صورت
کہیں تو استعاروں میں تمہارا حُسن شامل ہے
چھنکتی ہے کوئی پازیب سی سر سُو یہاں جیسے
طِلسمی آبشاروں میں تمہارا حُسن شامل ہے
کھنچے آئے شکارے جھیل سے یہ کیسا جادو ہے
یقیناً ان کناروں میں تمہارا حُسن شامل ہے
پہنچ کر قبر میں مجھ پر کُھلا یہ راز حیرت ہے
کہ میرے غمگُساروں میں تمہارا حُسن شامل ہے

پرویز مانوسؔ
آزاد بستی نٹی پورہ
سرینگر 9622937142

اچھا ہوا کہ بات بگڑ کر بنی نہیں
بنتی نہیں تھی تجھ سے ستمگر بنی نہیں
ہم لوگ مطمئن ہیں قناعت پسند ہیں
گاؤں میں آب جُو ہے سمندر بنی نہیں
ہم نے تو آزمائے سبھی موسموں کے رنگ
تصویرِ انتظار برابر بنی نہیں
ہیں دشتِ فکر و فن سے معانی نچوڑتے
یوں ہی زبان اپنی سخنور بنی نہیں
لوحِ جبیں پہ رقص ہے ابرِسیاہ کا
وہ کہکشاں تھی میرا مقدر بنی نہیں
ہجرت کی شاہراہ پہ چھوڑ آئے آرزو
بکھری سی ریت میل کا پتھر بنی نہیں
شیدا ؔ وہی فراق وہی شامِ انتظار
حالت تمہاری آج بھی بہتر بنی نہیں

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام ا?باد،
موبائل نمبر؛9419045087
[email protected]

ہر کرن کی چمک جھلملاتی رہی
آنکھ پرُ نم مگر مسکراتی رہی
برق کی سازشوں سے رہی بے خبر
ننھی چڑیا نشیمن بناتی رہی
وصلِ ساگر کے آنکھوں میں سپنے لئے
اِک ندی پیار میں گنگناتی رہی
اپنا سایہ بھی غائب تھا بِن روشنی
تیرگی بھی ہمیں کیا دکھاتی رہی
تیر ہی تیر اک دل نشانے پہ تھا
یاد تیری مجھے یوں ستاتی رہی
رات کی رانی شب بھر مہکتی رہی
یاد میں کس کی خوشبو لُٹاتی رہی
ہوش کی تتلی ہے تیرے ہر شعر میں
سوئے پھولوں کو گوہرؔ جگاتی رہی

گوہر بانہالی
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9906171211

لے کر متاعِ حسن ، اگر جائیے گا آپ
رہزن کھڑے ملیں گے جدھر جائیے گا آپ
شیشوں سے جسم پھول سے چہروں کے شہر میں
پتھر کے دل ملیں گے اگر جائیے گا آپ
لگتی ہے دور ہی سے فقط زندگی حسیں
نزدیک جائیے گا تو ، ڈر جائیے گا آپ
لازم ہے احتیاط بھی گر آندھیاں چلیں
تنکوں کی طرح ورنہ بکھر جائیے گا آپ
میرا بھی امتحانِ وفا لیجئے، مگر!
پہلے حدِ جفا سے گزر جائیے گا آپ
پوچھے گا جیتے جی نہ کوئی حال دل رفیق
روئیں گے پھر ہزار جو مر جائیے گا آپ

رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
سابق آفس سپرانٹنڈٹ بی ایس این ایل

کبھی گُزرے زمانوں سے وہ منظر جاوِداں نکلے
جہاں سے زندگانی کا خلِشؔ عہدِ گراں نکلے
اِلٰہی یہ بتا کیسے یہ ہجرِ ناگہاں نکلے
چِناروں میں لگا کر آگ اب کب یہ خزاں نکلے
کبھی نکلے تھے ہم تیرا کہیں کوئی نِشاں نکلے
ہماری جستجو میں اب ہمارا گھرمکاں نکلے
روابِط جو بھی تھے سارے ابھی تک رائیگاں نکلے
نہ کوئی مہرباں نکلے نہ کوئی ہم زباں نکلے
کوئی ہر شب گزرتا ہے کسی سکرات سے لیکن
ہے ایسا مرض یہ جس میں نہ دم آئے نہ جاں نکلے
یہ پیکر خاک سے اب راکھ ہو جائے گا دو دن میں
ہے آتش زیر پا میرے، گریباں سے دھواں نکلے

خلِشؔ
اسلام آباد، اننت ناگ کشمیر
[email protected]

ہم کو موسم اب سہانا چاہئے
ساتھ چلنے کو بہانا چاہیے

یاد جس سے تو کرے گا ہر کوئی
ایسا یارانہ تو ہونا چاہئے

عاشقی کر کے یہ پھر جاناں مرے
دور اتنا بھی نہ رہنا چاہئے

جو کیا ہے تم نے یہ مجھ سے یہاں
وعدہ کر کے یہ نبھانا چاہئے

طلحہ تجھ کو ہے قسم میری سُنو
دل مرا نا یہ دکھانا چاہئے

جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان

سب کے سب ہیں حمام میں ننگے
حبسِ بے جا ختام میں ننگے

دے نہ ناخن خدائے ، گنجے کو !
ہیں خدا کے بنام میں ننگے

ہو گئے پیدا کیوں خس و خاشاک ؟
سوء ظن تھے سہام میں ننگے

دیکھ لو آ کے تم شبِ دیجور
کل کے بندے صیام میں ننگے

گر رگوں نے رگڑ ی سی کھائی ، تھے
جسم و جاں کے قِوام میں ننگے

یہ تو مور و مگس کی باتیں ہیں
آبِ روشن کنام میں ننگے

تم لباسِ محباز ہو یاورؔ
پھر بھی حبسِ دوام میں ننگے

یاور حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160

فقیر عشق کے مارے ہم بھٹکتے پھرتے ہیں ویرانوں میں
ویرانہ ہمارے دِل سا نہیں ہے کوئی ویرانوں میں

ہم ہیں کہیں زمیں پہ خاک میں ملے ہوئے
نظر تمہاری ہے چاند ستاروں پر آسمانوں میں

دکھائی ہی نہیں دیتے ہیں ہم وہاں سے
وسیع ہیں فاصلے کتنے ہمارے دو جہانوں میں

رشتہ ہے یہ کیسا عجب ہمارے درمیاں
ہم تمہارے اپنوں میں ہیں نہ بیگانوں میں

میرے دلبر میرے محبوب ہو تم صورتؔ
ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم جس کو بُت خانوں میں

صورت سنگھ
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9622304549

اگر دل میں تیر ی محبت نہ ہوتی
تو مجھ کو کسی سے عداوت نہ ہوتی

نہ معیوب ہوتا اگر چاند تو پھر
تیری آج اتنی حفاظت نہ ہوتی

تیرے چاند تارے قدم چومتے گر
زمیں آسماں میں مسافت نہ ہوتی

نہ ہوتی اگر تیرے خوں میں جفائی
تو لب پہ میرے یہ بلاغت نہ ہوتی

تجھے گلشنوں میں ہی رکھتا ہمیشہ
اگر تجھ میں اتنی نزکت نہ ہوتی

نہ ہوتی محبت کسی کو بھی تم سے
اگرتیری مسکان عادت نہ ہوتی

بشارت کریمی
بہار

تجھ کو کہتا ہوں یار چُپ ہو جا
آئے گی پھر بہار چُپ ہوجا
ہار کر اس کو میں خوشی دوں گا
فتح میری ہے پیار چپ ہو جا
بات کر اپنی تو سلیقے سے
اِس طرح مت پکار چپ ہو جا
تیری ہی دلنوازی کی خاطر
ٹوٹے رشتے ہزار چپ ہو جا
کیا مصیبت زدہ وہ لڑکی تھی
عشق میں ٹوٹے تار چپ ہو جا
رونے دھونے سے فائیدہ کیا ہے
کیوں یہ دامن ہے تار چپ ہو جا
شور کرتا ہے کس لئے آخر
تجھ کو چڑھنا ہے دار چپ ہو جا
آنسوؤں سے ہیں تر ثمرؔ آنکھیں
اپنا چہرہ نکھار چپ ہو جا

سمیع احمد ثمرؔ
سارن بہار
[email protected]

 

 

غزلِ اَدب
جہاں ادب کو تخلیقیت پسندی، احساس دردمندی ، امتیازی سوچ اور محکم یقین سے چلا ملتی ہے وہاں ادب کی اٹکھیلیاں ، انگڑائیاں، کلکاریاں، بے نیا زیاں ادا طرازیاں اور گلہ گزاریاں کیسے نظر انداز کی جا سکتی ہیں۔ در اصل اس ٹیکنا لوجی کے دور میں ادب کا کینو اس وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے ادب کے لئے رابطہ عامہ اور اجتماعی طریقہ کار کے رجحانات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ادب وقت کی پکار ہے۔ جس میں دردمندی کا اظہا ر ہے ، مظلوموں کے لئے اُپکا ر ہے، زور آوروں کے لئے للکار ہے اور ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کے سنسکار موجود ہیں۔
ور نہ ادب کو دو اور دو چاکر والی عددی مساوات یعنی گنت و دیا(arithmetical equation) کے انداز میں برتنے والے اصحاب انعامات و اسناد(rewards and certificates)تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن زندگیوں ہیں رَس نہیں گھول سکتے ہیں۔ ایسے خشک اور ریاضی ادب کی کئی مثالیں نظر سے گزری ہیں ۔
پائیدار ادب فطرت سے متصادم (colliding) نہیں رہتا ہے۔
اس میںروداری اور پاسداری کا ایک حسین امتزاجa comely commingling of toleration and regard) (‏ برقرار رہتا ہے۔ ایسے کہ رَشحاتِ قلم سے احساسات و محسوسات (Feelings and sentiments)، جذبات(emotion)، مشرقی حیاداری(eastern modesty)اور احساس ذمہ داری (sense of responsibility)کا ترشح(drizzling)صاف نظر آتا ہے۔
میرا خیال ہے ادب کو ما بعد جدیدیت کے بُرے اثرات ، خدا بیزاری اورمغرب زدگی (westernization ) کے رحجانات سے محفوظ رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جاوداں پیہم رواں ، ہر دم جواں بھی ہے ادب
گلستاں ہے بوستاں ، آبِ رواں بھی ہے ادب
خود شناسی باعث آداب و تسلیمات ہے
ضوفشاں ، حُسنِ جہاں، عشقِ تپاں بھی ہے ادب
صوفیوں ، سنتوں نے جلائے ہواؤں میں دیئے
درد مندی سے رہا جو حرز ِجاں بھی ہے ادب
ہے ہوائے دشت سے آتی رفاقت کی مہک
ہر زماں صدق و صفا ، نطق بیاں بھی ہے ادب
آشنائے ادب ہیں جو لوگ وہ ہیں غم گسار
ہم زبان و ہم کلام و ہم عناں بھی ہے ادب
اے مہرِ کا ہل تو کیوں ہے بدلیوں کی اوٹ میں
تیرے چھپنے سے یہاں صبرِ نہاں بھی ہے ادب
اے کہ تو جویائے حق ہے دوستی انسان سے
آہ مہجورین تو ہے ، عدلِ جہاں بھی ہے ادب
رونق بزمِ جہاں میں پھول کھلتے ہیں بہت
آگے پیچھے ہے ادب تو درمیاں بھی ہے ادب
تفرقہ تو غلط ہے آئین و اعتبار سے
معتبر جو ادب ہے تو ترجماں بھی ہے ادب
جب شعورِ بشر کے در پئے ہیں اندیشے بہت
معترض کی کاوشِ کلکِ زباں بھی ہے ادب
مرحبا اے طائرِ پرواز تیرا مرحبا !
ہے اُڑان یکسر ادب تو داستان بھی ہے ادب
دم میں دم رہنا کہ ہے اکسیر بھی شعر و سخن
فرطِ عزیمت بھی ہو تو چیستاں بھی ہے ادب
یوں خوشا لگتے سدا ہیں تیر رموزِ خیال
حبّذا کہ اَرمغانِ دوستان بھی ہے ادب

ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندر بل کشمیر