غزلیات

کھینچناہےاب اگر توخواب کی تصویر کھینچ
تیز تر رفتار میں اس ریل کی زنجیر کھینچ
کھینچتا ہے کیوں مری تحریر پر ہی تو لکیر
تو اگر فنکار ہے تو کچھ بڑی تحریر کھینچ
کب تلک بھٹکوں زمانے میں فقیروں کی طرح
کچھ ترقی کی طرف اےجان من تقدیرکھینچ
آسماں سر پرکھلا ہےسردی، بارش، دھوپ میں
سر چھپانا ہے اگر تو تاڑ کی شہتیر کھینچ
سر د لہجے سے حریفوں کی نہ تو ہمت بڑھا
دل دہل جاتاہےجس سےتو وہی تاثیرکھینچ
مجھ سےگرالفت ہے تجھکو اے مری جنت نشاں
اپنی جانب بھی کبھی اے وادئ کشمیر کھینچ
غم کی گرمی سے جھلستا ہے مرا چہرہ تمام
میرے ماتھے پرخوشی کی روغنی تنویر کھینچ
عشق کا لاحق مرض ہے آج تک راقمؔ مجھے
ہے دوا جوبھی شفا کی درد میں اکسیر کھینچ

عمران راقم
موبائل نمبر؛9062102672

لہجوں پہ شاعری کا اثر دیر تک رہا
اُردو پہ فارسی کا اثر دیر تک رہا

حالانکہ پھول توڑے گئے شاخ سے تمام
ٹہنی پہ غنچگی کا اثر دیر تک رہا

خاموش ہوگیا تھا یہاں نغمہء حیات
کانوں میں نغمگی کا اثر دیر تک رہا

سجدے کا حق ہوا ہی نہ ہم سے کبھی اَدا
اللہ رے بندگی کا اثر دیر تک رہا

گرچہ مشاعرے میں رہا دو گھڑی فقط
کاغذ پہ شاعری کا اثر دیر تک رہا

رخصت کیا تھا باپ نے بیٹی کو گھر سے کل
آنگن میں پالکی کا اثر دیر تک رہا

لہروں سے کھیلتا ہی رہا آسماں کا نور
دریا پہ چاندنی کا اثر دیر تک رہا

اشرف عادل
الٰہی باغ ،سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9906540315

چاہے جو بھی ہو اُسے خاک بنا دیتی ہے
آگ تو آگ ہے ہر چیز جلا دیتی ہے
روٹھ جائوں تومنا تی ہے مری جانِ من
حسن وخوبی سے وہ شادابی بڑھا دیتی ہے
جب بھی جاتا ہوں میں روداد سنانے اپنی
میری سنتی ہی نہیں اپنی سنا دیتی ہے
کس کے سینے میں نہاںدنیا کے کتنے غم ہیں
صرف خاموشی زمانے کو بتا دیتی ہے
غم چھپانے کی یہ چوری نہیں سب کے بس میں
یہ کلا کاری ہی دنیا کو ہنسا دیتی ہے
یہ جو دنیا ہے سمجھ لو یہی درپن ٹھہرا
جب یہ روتی ہے سبھی کو ہی رلادیتی ہے
برتری دور رہے زیست سے ایسا سوچیں
شان والوں کی یہ ہر شان مٹا دیتی ہے
خود ستائی سے پرے شاذ، ؔ سدا تم رہنا
یہ تو انسان سے شیطان بنا دیتی ہے

خطاب عالم شا ذؔ
مغربی بنگال
موبائل نمبر؛8777536722

صدقے میں یار! حسن ترا جاودانہ ہے
قربان تجھ پہ دل یہ مرا عاشقانہ ہے
آنکھیں ہیں پُر خمار تری، ہونٹ مے کدہ
چہرہ مثالِ چاند، نظر قاتلانہ ہے
ہرنی کی طرح چوکڑی بھرتی ہو دلربا!
مستانی چال ڈھال ،اَدا قاتلانہ ہے
کس نے ہُنر سے خوب تراشا ترا بدن؟
یہ عشق تجھ سے کس کو بتا والہانہ ہے
زلفوں سے تری پھولوں نے خوشبو لی مستعار
تازہ ترے وجود سے سارا زمانہ ہے
پڑھ لو زبانِ دل سے یہ شادابؔ کی غزل
تحفہ ترے لئے یہ مرا شاعرانہ ہے

شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435

میری اذیتوں پہ خاموش سارا شہر ہے
جیسے ہونٹوں پہ لگی سب کے یہاں مہر ہے
برسوں سے مقيد دل نے رہائی نہیں پائی
جو گزار رہا ہے یہ وہ بس اسیری کا سفر ہے
جو میرا ہو کے بھی میرا کبھی نہ ہوا
تو ہی بتا دے وہ میرا کیسا نگر ہے
ہر کوئی ہے نفرت کے پرچار میں مصروف
یہ ہواؤں میں پھیلا کیسا زہر ہے
یہ دوگز زمیںتو میری ملکیت رہے گی ہی
پھر تُجھے زندگی کی کشمکش سے کیسا ڈر ہے
تیر صیاد کے سارے جِس پہ لگے ہیں
کوئی شیشہ نہیں بلکہ وہ میرا ہی جگر ہے
دل کے گلابوں کا قتل کر کے کہتے ہو
یہ قتل کا الزام بھی اب تیرے ہی سر ہے
رقیب کی صف میں جو شامل ہوا ہے وہ تو
کوئی اور نہیں بلکہ میرے برسوں کا ہمسفر ہے
تیرے جانے کے بعد تیرے اشعار سمجھ پائینگے
فی الحاج تو دنیا کہتی ہے کی راشدؔ آشفتہ سر ہے

راشد ؔاشرف
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105

پھر تمہارا غم دسمبر میں جواں ہو جائے گا
کوُچہ و بازار پھر سے اب دُھواں ہو جائے گا

پھر سے وادی برف پوشی سےحسیں ہو جائے گی
پھر دُوپٹے کا ترے مجھ کو گماں ہو جائے گا

پھر جمے گا آنکھ کا آنسُو تمہاری یاد میں
یاد کا دریا مگر دل میں رواں ہو جائے گا

نام تیرا رات بھر وردِ زُباں ہو جائے گا
اور بھی مشکل مرا عہدِ گراں ہو جائے گا

ظاہراً یہ درد تیرا لا مکاں ہو جائے گا
رُوح کی مانند یہ پیوستِ جاں ہو جائے گا

چاند بھی دُھندلائے گا ان سرد راتوں میں کبھی
غم ذدہ شام و سحر یہ آسماں ہو جائے گا

آگ لگ جائے گی ہر منظر دُھواں ہو جائے گا
یہ دسمبر بھی خلشؔ مثلِ خزاں ہو جائے گا

خلشؔ
اسلام آباد، اننت ناگ کشمیر،[email protected]