غزلیات

حصارِ ذات سے باہر نکل گیا ہوتا
نئے زمانے کے سانچے میں ڈھل گیا ہوتا

جمود نے تِری عظمت کو پائمال کیا
بدلتا دور تھا، تُو بھی بدل گیا ہوتا

بلا کا شور تھا لیکن نہ تیری آنکھ کُھلی
تُو زندہ ہوتا تو شاید سنبھل گیا ہوتا

ترے ضمیر کی آتش ہی بُجھ گئی ورنہ
تُو سنگِ خارہ بھی ہوتا پگھل گیا ہوتا

چراغ جل نہ سکا تھا اُمید کا بسملؔ
قنوط و یاس کا سورج بھی ڈھل گیا ہوتا

خورشیدبسملؔ
تھنہ منڈی ، راجوری
موبائل نمبر؛9622045323

گفتگو آج ادھوری ہے ملاقات کے بعد
جان پہچان ہی نکلے گی مگر بات کے بعد
میں جدھر دیکھوں اُدھر کالی گھٹا کا ہے سماں
دن بھی نکلے گا نکلتا ہے سبھی رات کے بعد
جب بھی محفل کو سجایا تو پڑھا اُن ؐپہ درود
اور پھر بزم کا آغاز کیا ،نعت کے بعد
موند کرآنکھ بھروسہ جو کیا کرتے ہیں لوگ
وہ کھلی آنکھ سدا رکھیں گے، اک گھات کے بعد
پیڑ مر جھائے ہوئے اور چمن بھی ہے اُداس
یہ بھی کِھل جائیں بہاراں سے ملاقات کے بعد
ہمسری کرتے ہیں اولاد وراثت میں سبھی سے
گھٹ گیابد سے بڑھا نیک خیالات کے بعد
ہر کسی کے ہی مقدر میں لکھی بات الگ ہے
ہو گیا مجھ کو یقیں ایک مساوات کے بعد
ایک تھیسس تھا جو کل تک وہی ہے آج کتاب
نام چینوں میں ہوئے چند مقالات کے بعد
مضطرب دل کی وجہ سے ہے مرا خستہ ضمیر
شاذؔ سیماب ہوا، بے کلی کی بات کے بعد

خطاب عالم شاذؔ
مغربی بنگال
موبائل نمبر؛8777536722

زندگی سے جو پیار کر آیا
خود کو خود بےقرار کر آیا
راستے میں تھا دشت یا دریا
حوصلہ کر کے پار کر آیا
اب نہ پہنچے گا کوئی بھی مجھ تک
راستے خارزار کر آیا
دل سمجھتا تھا جس کو ہرجائی
اس پہ ہی اعتبار کر آیا
تجربہ وہ بھی خوب تر تھا جو
بازئ عشق ہار کر آیا
حاجتِ قرض کے لئے تنگ دست
عزتِ نفس مار کر آیا
پاس تیرے بھی آدمی یا رب
کتنے چہرے اُتار کر آیا
پھر رہا ہی نہیں عدو کوئی
میں جو اونچا معیار کر آیا
پھر بھی عارضؔ اسے شکایت ہے
جس پہ گھر بار وار کر آیا

عارض ارشاد
نوہٹہ سرینگر
موبائل نمبر؛7006003386

میں نے وفا کو شہر میں رسوا نہیں کیا
یعنی کسی سے ذکر تمہارا نہیں کیا
اے دوست آج ایسے مری فکر مت کرو
تم نے بچھڑتے وقت جو ایسا نہیں کیا
چھاؤّں میں جس کی بیٹھ کے پڑھتا تھا سال بھر
اس پیڑ پر کسی نے بھی سایا نہیں کیا
ہر ایک آستان پہ سر کو جھکا لیا
ایسے ہی پارسائی کا دعویٰ نہیں کیا
الزام، ہائے دل مری نظروں پہ یوں نہ ڈال
کیا تم نے حشر سینے میں برپا نہیں کیا؟
جو تم کو سوچ سوچ کے مرنے لگا تھا اب
اس نے تمہارے بارے میں چرچا نہیں کیا
ملنی تھی چند لمحوں کے بدلے میں جس کو جان
حیران ہوں کہ اس نے یہ سودا نہیں کیا
تیری محبتوں پہ میں کیسے نہ شک کروں
تو نے تو مجھ سے ایک بھی وعدہ نہیں کیا
جاذب کو دوست سب نے ہی رسوا کیا مگر
تیر ی طرح کسی نے بھی رسوا نہیں کیا

جاذب ؔجہانگیر
سوپور، بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛7006706987

حقیقت پیش کرتے ہیں ،اداکاری نہیں آتی
ادب کی شاعری کرتے ہیں بازاری نہیں آتی
رکھیں ہم کس لئے اُمید تم سے پھر وفاؤں کی
ہمیں معلوم ہے تم کو وفاداری نہیں آتی
مگرمچھ کی طرح آنسو بہانا تم کو آتا ہے
ہمیں آتا ہے سب کچھ ہاں یہ مکاری نہیں آتی
بڑوں کے ساتھ رہنے سے تمہیں بھی آگئی ورنہ
مرے بچو ! لڑکپن میں سمجھداری نہیں آتی
نمازیں ہوں اگر قائم تو پھر رحمت برستی ہے
تلاوت ہو اگر گھر میں تو بیماری نہیں آتی
نہ ہوتا خون گر انسانیت کا ہر طرف یارو
خدا کو طیش نہ آتا، مہاماری نہیں آتی
نئی تہذیب کی باتيں سکھانے پر رفیقؔ ہم کو
سلیقہ آ تو جاتا ہے، ملنساری نہیں آتی

رفیق ؔعثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
[email protected]

دل ہی دل کی سنتا ہے
کلیاں بَن کی چنتا ہے

من میں اُسکے لاکھوں پھیر
اچھا بُھولا بنتا ہے

جس پر سب کے دائو چلے
بھائی وہ تو جنتا ہے

بگڑا دل کا شہزادہ
مشکل سے ہی منتا ہے

مشتاق مہدیؔ
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053

کبھی جو خوابوں میں بھی نہیں تھا سوچا
عشق میں میرے ایسا مرحلہ ہے آپہنچا

چاہوں بھی اگر میں، نہ اِس سے نکل پائوں
زلفِ گرہ گیر میں دل ہے تیرے اُلجھا

کُھلا بھید اِس کا جب ہوا معلوم
یہ معاملہ تھا کیا، اور میں تھا کیا سمجھا

کہاں مجھ پہ وہ یوں مہر باں ہوتا
کچھ تو تھا اِس میں اُسے مطلب سُوجھا

لی نہ سُدھ جس نے ہماری کہ کبھی
ہم نے بھی صورتؔ پتھر کو ہے پُوجا

صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

 

اگر دل میں تیر ی محبت نہ ہوتی
تو مجھ کو کسی سے عداوت نہ ہوتی

نہ معیوب ہوتا اگر چاند تو پھر
تیری آج اتنی حفاظت نہ ہوتی

تیرے چاند تارے قدم چومتے گر
زمیں آسماں میں مسافت نہ ہوتی

نہ ہوتی اگر تیرے خوں میں جفائی
تو لب پہ میرے یہ بلاغت نہ ہوتی

تجھے گلشنوں میں ہی رکھتا ہمیشہ
اگر تجھ میں اتنی نزاکت نہ ہوتی

نہ ہوتی محبت کسی کو بھی تم سے
اگرتیری مسکان عادت نہ ہوتی

بشارت کریمی
پنگور،
[email protected]

دل پہ میرے وار ہوا میں چپ رہا
مشکل سے دوچار ہوا میں چپ رہا
ہم نے بس جذبات کا اظہار کیا
تیرا لہجہ تلوار ہوا میں چپ رہا
تیر سينے پہ لگ کے زخم کھل گیا
درد سے دامن تار ہوا میں چپ رہا
سارے جذبے سب یہاں پامال ہوئے
نفرت کا پرچار ہوا میں چپ رہا
ہم نے سدا اُلفت کا کاروبار کیا
چاہت سے جب انکار ہوا میں چپ رہا
رشتے سبھی دولت سے مشروط ہوئے
کانٹوں کا جب کاروبار ہوا میں چپ رہا
راشد ؔتیر جگر کے پار ہوا تو چپ رہا
سچ تو یہ ہے کہ تُجھے پیار ہوا تو چپ رہا

راشد اشرف
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛962267105