غزلیات

رنگ اُتریں گے سبھی منظر میں کیا رہ جائے گا
آئینہ ہوجاؤں گا پتھر میں کیا رہ جائے گا

ہجر کی صدیوں میں ڈھل جائے گا لمحہ وصل کا
سلوٹیں تھک جائیں گی بستر میں کیا رہ جائے گا

چھین کر لیں حادثے گر تیری یادوں کا نزول
اس شبستانِ مہہ و اختر میں کیا رہ جائے گا

زندگی ہے عجلتوں کی دھوپ چھاؤں کا سفر
سانس ٹوٹے گی تو آہٹ بھر میں کیا رہ جائے گا

ٹوٹ جائے گی صدا پازیب کی لے کر تھکن
رقص تھم جائے پری پیکر میں کیا رہ جائے گا

چاہتوں کی دھوپ تک بجھ جائے گی شیداؔیہاں
خواب کوئی حبسِ ویراں گھر میں کیا رہ جائے گا

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087

 

 

 

شوق میرا اور تمہارا اور ہے
ڈوب جانے کا نظارہ اور ہے

فال نہ کھولا کرو یوں بے سبب
میرے غم کا استخارہ اور ہے

سوچ کر دریا میں کشتی ڈالنا
اب ہواؤں کا اشارہ اور ہے

میں جسے پڑھتا رہا وہ اور تھا
تیری آنکھوں کا شمارہ اور ہے

عاشقی میں دل کا لُٹنا اک طرف
جان جانے کا خسارہ اور ہے

اک سرابِ زندگی درپیش ہے
بعد اِس کے اک کنارہ اور ہے

تُم یہ کیا جاوؔید لے کر آ گئے
میری قسمت کا ستارہ اور ہے

سردارجاوؔیدخان
مینڈھر، پونچھ جموں
موبائل نمبر؛9419175198

ایک ہی غم کو غمِ جان بنا کر روئے
تجھ کو سو بار بُھلایا تو بُھلا کر روئے

کیوں مرے ساتھ کوئی اور بھی روئے شب بھر
شَمْعِ تُرْبَت کو خلِشؔ ہم تو بُجھا کر روئے

تیری تصویر سے منسوب تھی یادیں کتنی
تیری تصویر جلائی تو جلا کر روئے

ہر تمنا سے تھی وابستہ تمنا دل کی
ہر تمنا کو ان آنکھوں سے بہا کر روئے

زیب و زینت پہ جنہیں ناز ہوا کرتا تھا
خود کو آئینے میں اکثر سجاکر روئے

آرزو کیسی ہے مدفون مرے سینے میں
خاک میں خاک خلشؔ ہم تو ملا کر روئے

خلشؔ
اسلام آباد کشمیر
[email protected]

دل اعتبارِ عشق کے قابل نہیں رہا
وہ دل نہیں رہا مِرا، جس دل پہ ناز تھا

آفاق میں تو یار ہوں گمنام پھر رہا
جب اپنے ہی خیالوں کا آزاد باز تھا

جب ہاتھ اُس نے دکھتی ہوئی رگ پہ یوں رکھا
اُف! سر بلند آتِشِ سوز و گداز تھا

دردِ جگر ہے آتِشِ عشقِ بلا ہے آج
گو گردِ سرخِ عشق لباسِ مجاز تھا

میں گل شُگْفت کر رہا ہوں، گل فشانیاں
میرا خیال حاصِلِ عمرِ دراز تھا

صف باندھے بیٹھے یار ہیں خنجر لئے ہوئے
جب سامنے ہی ناتواں شکلِ جواز تھا

عرصہ گہہِ حیات مرا تنگ کر دیا
سینے میں پھٹ گیا جو دلِ ناگداز تھا

دل اور دماغ میں مرے بول و براز تھا
یاورؔ انہی میں میرا نشیب و فراز تھا

یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٹ، ہندوارہ کپوارہ
موبائل نمبر؛6005929160

 

 

 

دیکھ سوغات لے کے آیا ہوں
جاں بلب ہو کے تجھے پایا ہوں

مجھ سا مظلوم ہے کہاں کوئی ؟
میں وفاؤں سے چوٹ کھایا ہوں

دیکھ لینا مری کتابت کو
درد الفاظ میں سمایا ہوں

پیار کر نے کی اب نہیں چاہت
خود کو آلام سے بچایا ہوں

ما ل ودولت تو کچھ نہیں فیضیؔ
ہاں مگر دل کو ساتھ لایا ہوں

فیضان فیضیؔ
دار الہدی پنگنور
[email protected]