غزلیات

بات کچھ یوں کیا کرو سائیں
دل میں گھر کر لیا کرو سائیں
سر اُٹھا کر چلا کرو سائیں
کوئی محشر بپا کرو سائیں
چار سُو خوشبوئیں بکھر جائیں
صورتِ گُل جیا کرو سائیں
درد جولادوا سے ہوجائیں
اُن کی خاطر دعا کرو سائیں
موت دے گی دعائیں جینے کی
راہِ حق پر چلا کرو سائیں
صبر پیغمبروں کا اُسؤہ ہے
زہر یہ پی لیا کرو سائیں
مت جلو آتش رقابت میں
جامِ اُلفت پیا کرو سائیں
لاکھ خدشے ہیں روز ملنے میں
گاہے گاہے ملا کرو سائیں
خُودنمائی ہےخُودکُشی بسملؔ
چھپ چھپا کر رہا کرو سائیں

خورشیدبسملؔ
تھنہ منڈی راجوری، جموں
موبائل نمبر؛9622045323

جہاں تیری نگہ وہاں میری نظر بھی
اُدھر تیرے چرچے میرے اِدھر بھی
تیرا شعور تجھ میں میرا انداز مجھ میں
چھپے گی اخبار میں یہ خبر بھی
یہ سخن سازی ہے تحفۂ قدرت
کبھی اِس نگر، کبھی اُس ڈگر بھی
ہم ظلمت کو اُجالا کر کے دکھاتے
پہلو بھی یکسر اور ہمعصر بھی
مجھے مانے گر مجھ سے بھی کم تر
جدھر میری منزل ادھر میرا سفر بھی
شاعری سورج کی ٹھنڈی کرن ہے
کبھی تیرے گھر کبھی میرے گھر بھی
میں خواہانِ شہرت نہیں اے دوست
وقت ڈھونڈے گا مجھ کو رہوں میں جدھر بھی
اخلاص ہی میرا مضمون رہے گا
یہ سب کچھ سکھائے شمس و قمر بھی
روشن ضمیری میرا مقام سخن ہے
تھوڑی سی محنت تھوڑا سا صبر بھی
تمنا ہے کہ ایک پودا اُگاؤں
سایہ ہو جس میں اور دے ثمر بھی

شبنمؔ شاہجہان ڈینگ
نیل ۔ بانہال، رام بن

جام جب دل کا چھلکتا ہے غزل ہوتی ہے
جسم میں خون اُبلتا ہے غزل ہوتی ہے

پیڑ جب عشق کا لگتا ہے غزل ہوتی ہے
شاخ سے چاند لپٹتا ہے غزل ہوتی ہے

من سے بادل جو گزرتا ہے غزل ہوتی ہے
لفظ جذبات میں ڈھلتا ہے غزل ہوتی ہے

جب اُفق رنگ بدلتا ہے غزل ہوتی ہے
یاد کا چاند چمکتا ہے غزل ہوتی ہے

ہاں کبھی شام کبھی جام کبھی تاروں میں
ذکر جب یار کا ہوتا ہے غزل ہوتی ہے

رنگ کشمیر کے ہم نے جو بدلتے دیکھے
رنگ موسم کا بدلتا ہے غزل ہوتی ہے

ساریہؔ ضبط سے جو کام اگر لے تو کیا
راز جب دل کا اُبھرتا ہے غزل ہوتی ہے

ساریہؔ سکینہ
حضرتبل سرینگر

درد فرقت سے بڑھا جاتا ہے
تیرے بن اب نہ رہا جاتا ہے

ایسا لگتا ہے کہ تیرے جیسا
کوئی آتا ہے چلا جاتا ہے

تجھ سے ملنے کا پتہ بھی ہر روز
اب کوئی مجھ کو بتا جاتا ہے

تھک چکا ہوں تیرے وعدے سن کر
اب نہیں اور سنا جاتا ہے

کرکے یک طرفہ محبت غافل
یوں کسی پہ نہ مرا جاتا ہے

اتنی نفرت ہے کہ تجھ سے میرا
نام بھی اب نہ لیا جاتا ہے

دل لگانا نہ کسی سے حامد ؔ
میں نہیں کہتا کہا جاتا ہے

حامد ثقافی
ٹکرو شوپیان
موبائل نمبر؛7858942065

شش جہت خاموش اب کے سارے منظر خامشی
اس طرح سایہ فگن ہے اس نگر پر خامشی
دھند کے پہرے بچھے ہیں روشنی کی راہ میں
اور در و دیوار میں بیٹھی ہے چھپ کر خامشی
پاؤں کی جنبش سے زنجیرِ ستم جھنکار دے
ورنہ ڈیرا ڈال دے گی تیرے اندر خامشی
کچھ زیادہ ہی تیری یادوں کی شورش بڑھ گئی
شور ہے سارے بدن میں اور باہر خامشی
اب یہاں کے پانیوں میں زیر و بم ہوتا نہیں
ہے یہاں کے آبشاروں میں بھی مضمر خامشی
کیا ابھی بھی شہر میں باقی ہے رسمِ گفتگو
پوچھتی رہتی ہے پہروں مجھ سے اکثر خامشی
اس زمیں پر بولنے کی فصل اُگتے ہی یہاں
موسموں کے روپ میں آتی ہے ڈھل کر خامشی
جب کوئی سامع نہ ہو ذکرِ فراقِ یار کا
بزم میں سبزارؔ پھر رہتی ہے بہتر خامشی

سبزاراحمد
یورخوشی پورہ قاضی گنڈ، اننت ناگ

زندگی کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیںہے
پاس اپنے ہے مگر اپنی نہیں ہے
راس آئیں رونقیں کب اس جہان کی
مردہ دل میں زندگی ہی باقی نہیں ہے
گو الجھنیں بڑھا دی ہیں اپنوں نے میرے
یہ ظرف میرا ہے شکایت کی ہی نہیں ہے
جاتے جاتے آسماں تک رہ گئیں اٹکی
اب تو دعائوں میں اثر باقی نہیں ہے
خلوت میں ہی تو بارہا ہوتا ہے گماں یہ
تم اُسکو میسر ہو جسکا کوئی نہیں ہے
ہے یادِ رفتہ درد و تنہائی اور بس میں
گم گشتہ فسانے میں جگہ تیری نہیں ہے
ہم بھی غمِ جاناں میں جی کر دیکھتے جانُو
لیکن غمِ دُوراں نے مہلت دی ہی نہیں ہے
یہ اپنا پن یہ اعتبارِ تعلق منیبؔ
بس ایک چِھلاوے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ، بڈگام۔ کشمیر
موبائل نمبر؛9906486401

کیوں دل کی باتوں کو تُو زباں پر نہ لاسکا
اس رسم اور رواج کے پرے نہ جا سکا
میری زبان میں کہاں اتنی مٹھاس ہے
اقرار کے قریب اس لئے نہ آسکا
ہم نے سدا اک طرفہ ہی اُلفت نبھائی ہے
تو خود کو محبت کی حدوں میں نہ لا سکا
گردن تمہاری ابھی سرِ دار نہیں پہنچی
ہے وجہ یہی اب تلک منزل نہ پاسکا
سجدے ہزار تو کئے دیدار کے لئے
رُخ سے مگر حجاب کبھی نا ہٹاسکا
گو اُس نے رکھ لیا ہے مجھے اپنے قفس میں
پر میرے جذبِ عشق کو وہ نا مٹاسکا
ہے کھوچکی زبان میری طاقت گفتار
حالات دل نہ اس لئے تجھ کو بتا سکا
راشدؔ کو خاک کردیا بیدادِ عشق نے
تُو بھی تو سوزِ عشق سے خود کو نہ بچا سکا

راشد اشرف
کرالہ پورہ، چاڈورہ
موبائل نمبر؛9622667105

وقت نے دن کیسے ہم کو یہ دکھائے ہیں
کل تلک تھے اپنے وہ، جو اَب پرائے ہیں

شکوہ نہ تقدیر کا، نہ گلہ ہے کسی سے
پھل یہ اپنے ہی کئے کے ہم نے پائے ہیں

زخم کچھ ایسے بھی ہیں سینے میں ہمارے
گزرے ماہ و سال میں جو بھر نہ پائے ہیں

اب کہاں دل کہ کوئی دل کی حسرت نکلے
ناشاد ونا اُمید ہم جئے جائے ہیں

صورت ہے سُو جھی اُسکو شرارت یہ پھر کوئی
دیکھ ہمیں، آج وہ پھر مسکرائے ہیں

صورت ؔسنگھ
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9622304549

اب دیارِ خواب کو تُو خواب کہا کر
اور اُس کے حُسن کو سراب کہا کر

داستان اَزل کی ہے محبت کے یہ قصے
مجھ جیسے جسیموں کو تو جناب کہا کر

ہے آرزوئے دل اسکی غزل کا ہر ایک حرف
تُو اسکی شاعری کو بس گلاب کہا کر

موضوعِ عشق پر تو وہ روئے ہے سارا دِن
آنکھوں سے بہےاشکوں کو شباب کہا کر

اک تیرِ نظر سے ہے لُٹا قافلہ دل کا
عثمانؔ اِن آنکھوں کو صاحبِ کتاب کہاکر

عثمانؔ طارق
ڈول کشتواڑ،
موبائل نمبر؛9797542502