غزلیات

خزاں کے دور میں جو پھول خوشبو دار ہوتا ہے
چمن کے آبرو وہ زینتِ گلزار ہوتا ہے

سبھی پتھر شریک ہوتے ہیں اِس کارِ حسیں میں بھی
قدم بوسی سے ہر اک راستہ ہموار ہوتا ہے

یہ لب تیرے بھی اپنے بادہ خانے کے ہیں در ٹھہرے
تیرے ہونٹوں پہ آکے لفظ بھی سرشار ہوتا ہے

یہ اُن کا ریشمی کردار فطرت ہے اَدائوں کی
حسینوں کا ہر اک اقرار جب انکار ہوتا ہے

یہ فطرت جانثاری کی اُسی کے کام آتی ہے
جو رکھ لے جاں ہتھیلی پر وہی سردار ہوتا ہے

محبت کی جنگِ خاموش میں مشکل ہے طے کرنا
کہ کون اِن جاں نثاروں میں سپہ سالار ہوتا ہے

پروں میں جان ہے پنچھیؔ تیری پرواز کی خاطر
تیری پرواز کا جذبہ تیرا شہکار ہوتا ہے

سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ کھنہ، پنجاب
موبائل نمبر؛94197091668

آپ پھر ہوگئے خفا کیا ہے
کچھ تو بتلائیے ہوا کیا ہے

آگیا آپ پہ جو دل میرا
اس میں آخر مری خطا کیا ہے

دورِ حاضر میں جی رہا ہوں میں
اس سے بڑھ کر کوئی سزا کیا ہے

لمحہ لمحہ ہے کرب کا عالم
زیست یہ ہے تو پھر قضا کیا ہے

جان پایا نہ زیست کا مفہوم
تو ہی بتلا مرے خدا کیا ہے

ایسے آپس میں لڑ رہے ہو کیوں
مومنو ! یہ تمہیں ہوا کیا ہے

گردشیں خوب جانتی ہیں رفیقؔ
نام کیا ہے، مرا پتہ کیا ہے

رفیقؔ عثمانی
آکولہ مہاراشٹر
سابق آفس سپرانٹنڈنٹ بی ایس ین ایل

پڑھے نہ کوئی جہاں میں کتاب سا چہرہ
خزاں سے کیسے بچا لوں گلاب سا چہرہ

نگاہ ِ بد کا جو کھٹکا ہے تو سکون نہیں
ہوا ہے آج عیاں کیوں حجاب سا چہرہ

سنو اے چاند ذرا تم سے آج میں پوچھوں
دِکھا ہے کیا کبھی بولو جناب سا چہرہ

بدن کے دشت میں بھٹکا ہوں ہائے صدیوں سے
قریب پایا نہ اک پل سراب سا چہرہ

ہمارے ہوش تو اُڑنے تھے اڑ گئے لوگوں
پیا ہے شوق ِ نظر سے شراب سا چہرہ

لبوں کے تار سے شوخی کا ساز بجتا ہے
سُروں کا رنگ بکھیرے رباب سا چہرہ

خزاں کی گود میں سبزے کا عزم دیکھا ہے
خرد کے دور میں دیکھا شباب سا چہرہ

فلک ؔکی حور کیا اُتری ہے اِس زمین پہ کبھی؟
میرے قریب سے گزرا جواب سا چہرہ

فلک ریاض
حسینی کالونی چھتر گام ، چاڈورہ
[email protected]

آراستہ یارو ہیں ہم سینے کے داغ سے
بہلا رہے ہیں دِل کو اب خالی اَیاغ سے

بے وقت چمن چمن میں پتّے بکھر گئے
وحشت سی ہونے ہے لگی ہر باغ باغ سے

کچھ لوگ شاہیں کی تلاش میں نکلتے ہیں
پر واسطہ پڑتا ہے انہیں بُوم و زاغ سے

اُمید کا جھونکا تو ہے ہر ایک سنگِ میل
مقصود کی منزل ملے چشمِ سُراغ سے

ہے جہدِ مُسلسل جو زندگی کا نام بھی
کچھ محوِیّت بھی چاہئے وقتِ فراغ سے

وارفتگی مہنگی جو پڑجائے کبھی کبھار
ایسے میں ہر قدم بڑھے اِذنِ دماغ سے

آتی ہے پُختگی جو فن کے تجربات سے
نِکھرے ہے چَرمِ خام بھی کارِ دَبّاغ سے

پُھدکی کی زیب دیتی ہیں آنگن میں پُھدکیاں
ایسی اُمید عبث ہے رکھنا کلاغ سے

جھنجوڑتے ہیں روز واقعات و حادثات
سنبھالنا ہے دِل کو بھی نُطقِ بلاغ سے

غیروں پہ کیا اِلزام بھی ٹھہرایئے گا میرؔ
’’اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘

ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندربل کشمیر

پیمانہ ضبط نالہ ہے صبر و شکیب کا
میں لو لگا کے بیٹھا ہوں موسٰی کے طورسے
رشک و حَسد نفاق، تکبّر کو چھوڑ کر
اونچا یہ سر رہا ہے،شکستہ غُرور سے
نالے بلند تو ہیں ، سرِِ شام ہی سے یوں
جیسے دموں کا کھیل ہو بعْث و نُشور سے
حاصل ہوا یہ ضبط غمِ عشق میں مجھے
در در کی ٹھوکریں مِلیں جنّت کی حور سے
جب جب دلِ شکستہ کا مضراب چھو دیا
عُود و رباب بج پڑے، موجِ سُرور سے
وقتِ قضا سے پہلے در و بام بجھ گئے
پھر کیوں چراغ جل بجھا ،شورِ نشور سے
سب یار دوست چل دئے گو،یک نہ شُد دو شُد
نخلِ اُمید و آرزو حور و قصور سے
کیسی ہوس یہ تیری، جو مجھ کو ٹٹولتی
ڈر ڈر کے جی رہا ہوں، دلِ ناصُبور سے
کیوں چرخِ کینہ سوز ہے یاورؔ نصیبہ ور
جب وقت اک حبیب ہے،سوچا غُرور سے

یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160

پیمانہ ضبط نالہ ہے صبر و شکیب کا
میں لو لگا کے بیٹھا ہوں موسٰی کے طورسے
رشک و حَسد نفاق، تکبّر کو چھوڑ کر
اونچا یہ سر رہا ہے،شکستہ غُرور سے
نالے بلند تو ہیں ، سرِِ شام ہی سے یوں
جیسے دموں کا کھیل ہو بعْث و نُشور سے
حاصل ہوا یہ ضبط غمِ عشق میں مجھے
در در کی ٹھوکریں مِلیں جنّت کی حور سے
جب جب دلِ شکستہ کا مضراب چھو دیا
عُود و رباب بج پڑے، موجِ سُرور سے
وقتِ قضا سے پہلے در و بام بجھ گئے
پھر کیوں چراغ جل بجھا ،شورِ نشور سے
سب یار دوست چل دئے گو،یک نہ شُد دو شُد
نخلِ اُمید و آرزو حور و قصور سے
کیسی ہوس یہ تیری، جو مجھ کو ٹٹولتی
ڈر ڈر کے جی رہا ہوں، دلِ ناصُبور سے
کیوں چرخِ کینہ سوز ہے یاورؔ نصیبہ ور
جب وقت اک حبیب ہے،سوچا غُرور سے

یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160

اِس قدر عشق میں بے قرار ہے دِل
ایسا لگتا ہے کہ بیمار ہے دل

گلی میں اُس کی جاتا ہے بار بار
دِل کو اُس سے بہت پیار ہے دِل

وہ جو کب کا ہی جاچکا ہے
کہو کیوں اُس کا انتظار ہے دِل

نشہ سا چھایا ہے تن بدن میں
کیسا یہ عشق کا خمار ہے دِل

مداوا مرضِ عشق کا کرے کیا صورتؔ
اِسی الجھن میں گرفتار ہے دِل

صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

مجھ کو جو چاہیے تھا وہ مجھ کو ملا نہیں
سو اب مرے لبوں پہ کوئی التجا نہیں
مجھ کو گلہ کیا ہوتا تُو سب سے ملا مگر
ہاں اک گلہ ہے وہ یہ تُو مجھ سے ملا نہیں
ہم ہیں اسی جہاں کے کہیں اور کے نہیں
یہ ہے تمہاری مرضی یقیں کر لے یا نہیں
اب کس سے ہے توقع کہاں جائو گے اے دل
کم ظرف اس جہاں میں کوئی با وفاء نہیں
برباد ہونا ہی تھا سو برباد ہو گیا
اب مجھ کو میری جان کسی سے گلہ نہیں
وہ بھولی لڑکی مجھ کو بَھلا کیسے جانتی
جو اُس کے سامنے میں کبھی بھی کُھلا نہیں
تم کو ابھی ہے فکر مرے دل کی دنیا کی
وہ ہو گئی تباہ وہاں کچھ بچا نہیں
گلیاں بہت خموش کہیں ہائے ہُو نہیں
کیا کچھ ہوا ہے یارو میں نے کچھ سُنا نہیں
پھر سے جگائے کون تمناؤں کو مری
اس صحنِ بے دِلی میں وہ بادِ صبا نہیں
جانے ہوا کیا اس کو کہاں کھو گیا ہے وہ
اس کا بہت دنوں سے کہیں کچھ پتا نہیں
الفاظ ہی قلم کو میسر نہیں کہیں
محسوس جو کیا ہے وہ میں نے لکھا نہیں

میر شہریار
اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105