غزلیات

حد سے مشکل ہوگئے کیوں زندگی کے راستے
ہے سبب اے دوست تیری دوستی کے راستے
سوچتا ہوں کس کو چھوڑوں اور کسے اپناوں میں
عشقِ دنیا چن لوں یا پھر بندگی کے راستے
کل تلک تھے مہرباں اب بے سبب ہے بے رخی
کر گئے برپا سمندر تشنگی کے راستے
غم کی ظلمت میں ہے پنہاں شادمانی کی سحر
پھول نے کانٹوں میں پائے برتری کے راستے
سب کی قسمت اپنی اپنی سب کا اپنا مرتبہ
روکتے ہیں چاند تارے کب کسی کے راستے
حالِ دل کہنے میں گوہر ؔپیش تھیں دشواریاں
کر گئے آسان منزل شاعری کے راستے

گوہر ؔبانہالی
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9906171211

یہ زمیں چپ ہے آسماں چُپ ہے
ہر طرف ظلم ہے جہاں چُپ ہے
وقت کرتا رہا ستم پہ ستم
میں یہاں چُپ ہوں تو وہاں چُپ ہے
بیٹھ کر مفلسی کے پہلو میں
بچہ روتا ہے اور ماں چُپ ہے
میں تو خاموش ہوں مگر یارو
شور دل میں ہے دل کہاں چپ ہے
دیکھ کر آج کی محبت کو
لیلیٰ مجنوں کی داستاں چُپ ہے
جل رہا ہے بھری برسات میں دل
آگ خاموش ہے دھواں چپ ہے
کاش ایسے میں وہ بھی آتے رفیق ؔ
رات بھیگی ہوئی سماں چپ ہے

رفیق ؔعثمانی
سابق آفس سپرانٹنڈنٹ
آکولہ ، مہارشٹرا

توُ نہیں تو تیری خبر آئے
کوئی اُمید تو نظر آئے
موت آکر بھی کیوں نہیں آتی
اب قیامت کوئی اُتر آئے
آنکھ محشر تلک نہ کھل پائے
نیند آئے تو اس قدر آئے
پیرہن چاند کا جلا سا ہے
شبِ پُرنم کی اب سحر آئے
اُس پہر یاد تجھکو کرتا ہوں
چاند کھڑکی میں جس نظر آئے
بے قراری میں بھی سکوں آئے
یا خدا مجھ کو یہ ہُنر آئے

خلشؔ
اسلام آباد ، اننت ناگ کشمیر

اب اپنے شہر میں کوئی سائل نہیں رہا
دولت کی سمت کوئی بھی مائل نہیں رہا
کیا کچھ کمی تھی اس میں بتائیں ذرا مجھے
میرا کلام کس لئے شامل نہیں رہا
عادل بھی اس کے جرم کو کرنے لگا معاف
قاتل ہمارے شہر کا قاتل نہیں رہا
دلچسپ مجھ کو لگتی ہے اردو کی شاعری
شعر و سخن سے میں کبھی غافل نہیں رہا
سب پینے والے کرنے لگے دنگے اور فساد
“اب مے کدہ بھی سیر کے قابل نہیں رہا”
کس طرح ہوگا پار سفینہ مرا ثمرؔ
نظروں سے میری دور بھی ساحل نہیں رہا

سمیع احمد ثمرؔ
سارن بہار
[email protected]

شہر میں یہ سماں دکھائی دیتا ہے
میری ہی موت کا چرچہ دکھائی دیتا ہے

اُجالے میں جو اپنا دکھائی دیتا ہے
اندھیرے میں وہ پرایا دکھائی دیتا ہے

وہ شخص جس نے زہر دے کر مارا تھا
وہی تو اب مجھے اپنا دکھائی دیتا ہے

میرے وجود کی گہری گپھا میں مت جھانکو
یہاں تو ہر کوئی رسواء دکھائی دیتا ہے

قریب سے جو نظر بچا کے گیا ہے ابھی
مجھے وہ کوئی شناسا دکھائی دیتا ہے

خطا سے پہلے خطا کی سزا ملے خاورؔ
یہ مصلحت کا تقاضا دکھائی دیتا ہے

نذیر خاورؔ
زاکر نگر، نئی دہلی
موبائل نمبر؛9911733774

دل کی یہ باتیں کہنے تو دو
جہاں میں ہوں وہیں رہنے تو دو

گر شوق ہے اس سے یہ غم سُننے کا
اسے محفل میری سجانے تو دو

میں تو دیوانہ ہوں اس اک پری کا
مجھے اس کے یہ غم سہنے تو دو

وہ چھوڑ گیا ہے اس رہ پہ
مرے اشکوں کا لہو بہنے تو دو

مری طلحہؔ سمجھ لے تو اک بات اب
اسے اپنے حال پہ رہنے تو دو

جنید رشید راتھر طلحہ ؔ
آونورہ شوپیان
[email protected]

ان کے در پہ مسلسل جانا مجھے تو اچھا لگتا ہے
دل کی دھڑکن میں بسا لینا مجھے تو اچھا لگتا ہے

جب بھی ان کی یاد آتی ہے تڑپنا بہت مشکل ہے
بزم کو خیالوں میں سجا لینا مجھے تو اچھا لگتا ہے

دل ہی میں اسے کہہ دینا ذرا خالی نظر بھی ادھر ڈالو
خوابوں میں اُس کا آنا جانا مجھے تو اچھا لگتا ہے

خوشبو انکی آتی ہے جس راستے سے بس گزرتا ہوں
ملنے کیلئے ڈھونڈنا بہانا مجھے تو اچھا لگتا ہے

بس اک آرزو ہے دل ہی دل میں صدیوں سے تڑپتا ہوں
اُن کی ہی چوکھٹ پہ مٹ جانا مجھے تو اچھا لگتا ہے

جب سے سبدرؔ نے محبت اس کی دل میں بسائی ہے
اُس کی یادوں میں ہی کھوجانا مجھے تو اچھا لگتا ہے

سبدر شبیر
اوٹو اہربل کولگام
موبائل نمبر؛9797008660

کیسے ملی مہک یہاں گردو غبار میں
یہ حادثہ کیوں کر ہوا فصلِ بہار میں

پہرے چمن چمن میں ہیں گلچین کے یہاں
عکساں جبھی ہے درد و غم ہر برگ و خار میں

پیغام فیصلے کا پتہ کیسے آئے گا؟
ہر فرد ہے خاموش اسکے انتظار میں

ہوگی خبر کوئی توخیر خواہی کی یارو
چھائی ہے خوشنمائی سے دیکھو اخبار میں

اُلفت کے پھول کِھل اُٹھینگے دیکھنا ہر سُو
حق آئے گا نفرت کے دہکتے بازار میں

فاروق احمد قادری
کوٹی ڈوڈہ، جموں