غزلیات

تنہا ہے بہت ہجر میں تنہائی غموں کی
دیکھی ہے بہت ہم نے بھی گہرائی غموں کی
خوشیوں کی کبھی بخیہ گری راس نہ آئی
کس ہاتھ نے کر رکھی ہے ترپائی غموں کی
ہر بار مجھے ڈھونڈ لیا بزم طرب میں
اے دوست بہت تیز ہے بینائی غموں کی
کچھ اور بھی شاداب ہوئی فصلِ اَلم اب
کیا خوب یہاں ہوتی ہے سینچائی غموں کی
انجام خوشی کا ہے بہت تلخ عزیزو
کڑوی ہے بہت دنیا میں سچائی غموں کی
رہتے ہیں بلندی پہ جو افلاک اَلم کے
محسوس وہی کرتے ہیں اونچائی غموں کی
دیکھا ہے دھواں عشق کی آتش کا سبھوں نے
عادلؔ کبھی کرتا نہیں رسوائی غموں کی

اشرف عادل ؔ
الٰہی باغ سرینگر
موبائل نمبر؛9906540315

روکنا اس کو دشوار پہلے نہ تھا
وہ کبھی مجھ سے بیزار پہلے نہ تھا
میرے اوسان سارے خطا ہو گئے
عشق میں اتنا لا چار پہلے نہ تھا
لوگ یہ سب عدو بن گئے ہیں مرے
اس قدر بے مدد گار پہلے نہ تھا
سانپ بن کر یہ تنہائی ڈستی رہی
دل مرا اتنا بیمار پہلے نہ تھا
زخم ہی زخم ہیں اب بدن پر مرے
رستہ اتنا بھی پُر خار پہلے نہ تھا
وصلِ معشوق اب دور کی بات ہے
مجھ سے ناراض تو یار پہلے نہ تھا
عمر تمام ہونے کو آزادؔ ہے
خم یہ آنکھوں کا خمار پہلے نہ تھا

ایف آزاد ؔدلنوی
دلنہ بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005196878

اس نے اردو ادب کی نہ کچھ بات کی
بات کرتا رہا اپنے صدمات کی

بند رہتا ہے وہ اپنے ہی خول میں
کچھ خبر ہی نہیں اس کو حالات کی

دیکھ کر میری غزلیں بہت خوش ہوا
اس نے تعریف کی ہے خیالات کی

دوست میرا ہے لیکن اسے کیا کہوں
قدر کرتا نہیں میرے جذبات کی

ندی نالے سبھی خوب بہنے لگے
رت جو آئی ہے پھر سے یہ برسات کی

میں ثمرؔ منتظر ہوں بڑے شوق سے
پھر گھڑی آگئی ہے ملاقات کی

سمیع احمد ثمرؔ
سارن بہار
موبائل نمبر؛ 7488820892

’’شہر سنسان ہے،کدھر جائیں‘‘
یار حیران ہے،کدھر جائیں

اب لگا تے نہیں گلے وہ بھی
جن سے پہچان ہے، کدھر جائیں

بیٹھ کر اب کہاں کریں باتیں
باغ ویران ہے، کدھر جائیں

آ چُکے ہیں وہاں،جہاں آگے
کھیت کھلیان ہیں،کدھر جائیں

ٹھہر جائو منیؔ یہاں پر ہی
رستہ انجان ہے، کدھر جائیں

ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
بھدرواہ جموں
موبائل نمبر؛9906397577

بزم سے آپ کی پھر گزرنے کے نہیں ہیں
گر گئے نظر سے تری ٹھہرنے کے نہیں ہیں

نہ چھیڑ اب میرے حُسن کے گُن اے مطرب
ہم خود ہی مری جان سنورنے کے نہیں ہیں

چمن کی آرزو رہنے دو خزاں کے موسم میں
آنگن میں وہ شہزادے اُترنے کے نہیں ہیں

تڑپنے کا ترے اُن کو تو احساس ہے سعیدؔ
پر اپنی بات سے ہرگز مُکرنے کے نہیں ہیں

سعید احمد سعید
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380]

آنکھوں کو یونہی کوئی خواب دکھانا تھا مجھے
خوابوں کے شہر میں ورنہ کہاں آنا تھا مجھے
قیس کے دشت میں اک شہر بسانا تھا مجھے
اور پھر اُس شہر کو جلانا تھا مجھے
وہ بھی مجبور تھی وہ شخص بُھلانا تھا اسے
میں بھی مجبور ہر حال میں نبھانا تھا مجھے
اپنے دل کو بجھا کے زخم جلائے میں نے
یاد کے زرد چراغوں کو بجھانا تھا مجھے
جلدی اس کو ہی لُٹانے کی تھی مجھ کو ورنہ
رفتہ رفتہ متاعِ جاں کو لُٹانا تھا مجھے
کر رہا تھا اسی سے ترکِ تعلق جس سے
گہرا سا کوئی تعلق بھی بڑھانا تھا مجھے
وہ جہاں زاد کی صورت میں بھی کچھ اور ہی تھا
اس حسیں راز سے بھی پردہ اٹھانا تھا مجھے
جانے اتنی بھی شرافت سے وہ کیوں رہنے لگے
ان شریفوں کی گلی میں شور مچانا تھا مجھے
جمع کرتا ہی کیوں کر یہ متاعِ بے بہا میں
ویسے بھی سب کسی دن چھوڑ کے جانا تھا مجھے

میر شہریار
اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105

تم مجھ سے آنکھ ملاتے کیوں ہو
یہ سستی سی شراب پلاتے کیوں ہو

عشق کرنا اگر تمہیں آتا نہیں
یہ عشق بازی کے تیر چلاتے کیوں ہو

خفا ہے اگر میرے دل کی دنیا
تم مجھے پھر یوں ہی ستاتے کیوں ہو

مجرم ہوں میں اگرتمہارا ساقی
زخم پر تم شراب لگاتے کیوں ہو

دل کو دُکھا کے جب بھی گیا وہ میرا
یاد پرانے زخم تم کراتے کیوںہو

محبت میں کتنا برباد ہوا عثمانؔ
یاد وہ خسارا تم دلاتے کیوں ہو

عثمان ؔطارق
کارپلازا، کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9797542502