غزلیات

لکھ کر تری تعریف میں اشعار کسی دن
کر دوں گا جہاں میں تجھے شہکار کسی دن
اپنانے کی خاطر ترا دربار کسی دن
آ جاؤں گا میں چھوڑ کے گھر بار کسی دن
اے کیفِ تغزل ترے جادو سے مجھے بھی
ہو جائے گا عشقِ لب و رخسار کسی دن
حسرت ہے کہ میں بھی کروں قسمت پہ تکبر
میرے بھی لئے تم کرو سنگار کسی دن
میرے دلِ مضطر کو سکوں کی ہے ضرورت
لگ جا مرے سینے سے تو اے یار کسی دن
کیا ہوگا ترا اتنا بتا اس کے پرستار
بن بیٹھا یہی پھول اگر خار کسی دن
اب دردِ مسلسل سے مجھے لگنے لگا ہے
لے لے گا مری جان یہ آزار کسی دن
تو سامنے سج دھج کے یونہی آتی رہی جو
ہو جاؤں گا میں تیرا گنہگار کسی دن
میں بھی کہوں خواہش ہے نرالی سی غزل اک
ہو جا تو مرا زینتِ افکار کسی دن
ہر قیدِ زمانہ سے بچا لینے کی خاطر
کر لے مجھے زلفوں میں گرفتار کسی دن
ہم ملتے رہے یونہی جو روزانہ مسلسل
ہو جائے گا پھر دیکھنا تم پیار کسی دن
پھر تجھ کو منانے کی تمنا اٹھی دل میں
پھر مجھ سے تو ہو جا ذرا بیزار کسی دن
میری ہی طرح عشق کے جذبات کا تم بھی
اے جانِ تمنا کرو اظہار کسی دن

ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج، بارہ بنکی، اترپردیش

نگاہِ عشق سے ماحول خوشبودار کیجئے گا
مجھے اور میری میّت دونوں کو سرشار کیجئے گا
میں جائوں گا گلے ملنے کو جب محبوبہ آتش سے
تو اِک شیریں تبسُم سے میرا ستکار کیجئے گا
میری اِس اَرتھی پر دے دے کے بوسہ اپنی شفقت کا
جنم سے سو رہی قسمت میری بیدار کیجئے گا
اگر یہ اشک چاہیں آپ انہیں میت پر برسائیں
تو ازراہِ کرم اِس کام سے انکار کیجئے گا
وہ شاخِ گُل نہیں مایوس ہوگی خندہ زن ہوگی
کہ اُس کے گُل کو گُل رکھنا اُسے مت خار کیجئے گا
عمل یہ وقتِ آخر کام آئے گا میری صورت
کہ جب ہر صنفِ نازک کا دِلی ستکار کیجئے گا
نبھانا ہواگر وعدہ بھی ہر صورت ہر اِک پہلو
تو میرا نام لے کر ہی کوئی اقرار کیجئے گا
میری اردو زباں میں خاکہ آرائیاں ہیں کاوش ہی
ملا کر خوش نظر اِن کو حسیں شہکار کیجئے گا
زبان اردو کی خدمت یہ بھی ہے کہ ہم ہوں یک سیرت
خیال اپنا عمل اپنا سپہ سالار کیجئے گا
جو بخشا ہے خدا نے یہ قلم بھی ادبی خدمت کو
تو اِس کا لفظِ گُل ہر اِک گُلِ گلزار کیجئے گا
رہی ہے جس میں ہر پرواز دو شیزائوں کی صورت ہی
نشین اپنے پنچھیؔ کا قطب مینا رکیجئے گا

سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ، کھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

یہ کیا کہتے ہو یارو مر گیا ہے
ابھی تو مجھ سے وہ مل کر گیا ہے
بہت معصوم سا چہرہ تھا اس کا
جو مجھ کو گھونپ کر خنجر گیا ہے
فلک چھونے کی اندھی جستجو میں
پرندہ اُڑتے اُڑتے مر گیا ہے
کوئی کیسے اُسے پہچان پاتا
وہ برسوں بعد اپنے گھر گیا ہے
ندی تالاب تو سوکھے پڑے ہیں
مگر پانی گھروں میں بھر گیا ہے
کہ کھیلی جا رہی تھی خوں کی ہولی
نگاہوں سے عجب منظر گیا ہے
نصابوں میں نئی تاریخ پڑھ کر
دماغوں میں تعصّب بھر گیا ہے

رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
ریٹائرڈ آفس سپرانٹنڈت BSNL

ڈر لگتا نہیں اب ہجر کی رات سے
منسُوب جو ہونے چلا میں اُن کی ذات سے

ہے سکونِ قلب کہاں ؟ کس نے چھینا آخر !
پوچھو ! تو سہی اِن نئے حالات سے

دُور جانے کا سبب پوچھا تھا اُن سے
کیا معلوم ہے شکایت مجھ سے کہ میری بات سے

ہم تو روز مرتے ہیں نظامِ زّر کی بستی میں
ایک بار ہی مرے وہ جنہیں محبت تھی حیات سے

حصارِ محبت سے کبھی باہر تُو دیکھ مشتاقؔ
لوگ کھیلتے ہیں یاں اِک دوسرے کے جذبات سے

خوشنویس میر مشتاق
ایسو ،اننت ناگ
[email protected]

کبھی معیار کو اپنے بڑھالے
پھر اس کے بعد میرے پاس آنا
تیرا یوسف کوئی مجنوں نہیں ہے
زلیخائے عزیزاں مات کھانا
یہاں لمحوں میں صدیاں ہیں گزرتیں
یہی ہے زندگی کا بیت جانا
کہاں ہے وہ کہاں پہ ہے محبت
کہاں ہوں میں کہاں میرا ٹھکانا
دلِ ناداں یہ کیسی انتظاری
نہیں ممکن ہے اُس کا لوٹ آنا
بہت مشکل سے کہنا پڑ رہا ہے
بہت مشکل ہے اُس کو بھول جانا
میاں یہ عشق کی بازی ہے اس میں
اگر ہارے نہیں تو پھر بتانا
سبھی کے عیب گنتے جا رہے ہو
کبھی خود کو بھی تم نیچا دکھانا
کماں اُس کی تو تھی میری ہی جانب
تو چُوکاکیسے پھر اُس کا نشانہ؟
تمہیں گر جان کی پرواہ ہے تو پھر
تمہیں کس نے کہا ہے دل لگانا؟

عقیل ؔفاروق
بنہ بازار شوپیان،موبائل نمبر؛7006542670

دل اُلجھتا ہے مرا الجھنوں سے
جب ہوں آنکھیں خوب تر رت جگوں سے
بھاگتے پھرتے ہیں پیڑوں سے اکثر
جو پرندے ڈرتے ہوں دوسروں سے
دمدَمے میں دم نہیں ، خیر بیٹھا
ہوں لگا کے آس یاں مدّتوں سے
ہاتھ سے چھوٹی ہے مری ریت کی طرح
آہ! یہ تقدیر بختِ زبُوں سے
غم،ستم ،آلام، تنگی کہ جیسے
کوئی وادی ہو ڈھکی مشکلِوں سے
ہلنے کو اب جی نہیں چاہتا ہے
کیوں ہَوا کے تند رو جھونکوں سے
کیا خوشی ہو اور جب بھر پڑا ہو
بسترِ عیش و طرب کانٹوں سے
کیسے سانچوں میں ڈھلے لوگ دیکھے
جن کو پرکھا ان ہی کے سانچوں سے
پھر پریشاں ہو گیا ہے تو یاورؔ
عالمِ جوشِ جُنوں کے فزوں سے

یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
[email protected]

اُڑ رہے ہیں پروں پہ تخیل کے آسمانوں میں
اے شمع سوزِ غمِ عشق ہم کہ ترے پروانوں میں

پئیں گے وہی یہ ہے جن کے مقدر میں
مئے حُسن و شباب جھلک رہا ہے پیمانوں میں

ہم کہ تشنہ لب رہے تیری محفل میں اے ساقی
لوگ کرتے ہیں دور تشنہ لبی اپنی، میخانوں میں

کرکے مدہوش رکھتی ہے اِک نظر جو دیکھیں
مئے ہے ایسی بھری تیری آنکھ کے پیمانوں میں

نکل کے باہر نہ پھر وہ آسکا صورتؔ
جو ایک بار ہی آیا تری آنکھ کے نشانوں میں

صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛96223045449

ان کے در پہ مسلسل جانا مجھے تو اچھا لگتا ہے
دل کی دھڑکن میں بسا لینا مجھے تو اچھا لگتا ہے
جب بھی ان کی یاد آتی ہے تڑپنا بہت مشکل ہے
بزم کو خیالوں میں سجا لینا مجھے تو اچھا لگتا ہے
دل ہی میں اسے کہہ دینا ذرا خالی نظر بھی ادھر ڈالو
خوابوں میں اسکا آنا جانا مجھے تو اچھا لگتا ہے
خوشبو انکی آتی ہے جس راستے سے بس گزرتا ہوں
ملنے کیلئے ڈھونڈتے پھرنا مجھے تو اچھا لگتا ہے
بس اک آرزو ہے دل ہی دل میں صدیوں سے تڑپتا ہوں
ان کی ہی چوکھٹ پہ مٹ جانا مجھے تو اچھا لگتا ہے
جب سے سبدرؔ نے محبت اس کی دل میں بسائی ہے
اُس کی یادوں میں ہی کھوجانا مجھے تو اچھا لگتا ہے

سبدر شبیر
اوٹو اہربل کولگام
موبائل نمبر؛9797008660