غزلیات

عدُو کی زد میں ہے کب سے حصارِ ذات مرِی
ہراس و خوف میں گُزری ہر ایک رات مرِی

مِرا تھا ہاتھ نوالے کی سمت پھیلا ہوا
امیرِ شہر مگر دیکھتا تھا کات مِری

کفیل اپنے گھرانے کی ہوں،بتاؤں کسے
سمٹ گئی اسی روٹی میں کائنات مِری

کبھی میں اپنے قبیلے کا ایک رہبر تھا
پھر آج کیوں نہیں سُنتا ہے کوئی بات مِری

بہت سے لوگ ہیں جیسے ابھی ہوئے شامل
اسی طرح سے تھی نکلی کبھی برات مِری

میں تیز دُھوپ میں جس کا تھا سائبان بنا
اُسی کے واسطے اب کچھ نہیں حیات مِری

بچھڑنے والے کو احساسِ درد ہوجاتا
کبھی جو دیکھتا وہ قلبی واردات مرِی

پرویز مانوسؔ
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142

خواہشیں بڑھ گئیں اتنی مری بڑھتے بڑھتے
چڑھ گیا عرش پہ میں خوب ہی چڑھتے چڑھتے

دل اُتر نے کا کبھی نام نہیں لیتا ہے
تھک گئی میری زباں عشق میں کہتے کہتے

ہم سفر مجھ کو کہاں لے کے چلا جائے گا
ڈر بھی لگتا ہے مجھے ساتھ میں چلتے چلتے

ظلم کرتے ہیں، نمازیں بھی پڑھا کرتے ہیں
نیک ظالم ہیں جبر کرتے ہیں پڑھتے پڑھتے

جوبدلتے ہی نہیں خُود کبھی اپنے تیور
عمر گزری ہے اُسے ظلم کوسہتے سہتے

میں نے جب ٹھان لیا ظلم نہ ہونے دوں گا
چھوڑ کے بھاگے وہ میدان ہی ڈرتے ڈرتے

ظلم کرنا ہے بُرا، سہنا بُرا ہی ٹھہرا
شاذ ؔ اس دور میں بچنا بھی ہے بچتے بچتے

خطاب عالم شاذؔ
مغربی بنگال
موبائل نمبر؛ 8777536722

تیری فرقت کی سزا بعدِ قضا اور نہیں
اب تقاضائے وفا ہے کہ وفا اور نہیں

میں نے پایا ہے سکوں آج یوں مرجانے میں
اب دعا میرے لئے پاسِ خدا اور نہیں

تیری حرمت تری الفت سے ہے پہلے آتی
ہوں خطاوار خلشؔ ورنہ خطا اور نہیں

مانگتے ہو مرے مرنے کی دعائیں کیونکر
ہو ہی سکتا ہے مرا حال بُرا اور نہیں

میں ترے نام پہ رویا ہوں عمر بھر ظالم
اب ترے نام کی منظور سزا اور نہیں

ہوگئے راز کئی فاش یہ تیرے لیکن
بات یہ اور ہے میں تجھ سے خفا اور نہیں

خلشؔ
اسلام آباد کشمیر
[email protected]

مرے دل عشق میں راہِ فرار نہ ڈھونڈ
غمِ ہجراں میں موسمِ خوش گوار نہ ڈھونڈ
لُٹا دے وہ سکوں بھی جو بچا ترے پاس
جہانِ طوفاں میں پھر وہ قرار نہ ڈھونڈ
بہاروں نے بھی کھائی ہیں جوانیاں دیکھ
خزاں کو آزما تو پر بہار نہ ڈھونڈ
بسا اپنا جہاں خلوت کے صحن میں دوست
فریبوں کے نگر میں دوستدار نہ ڈھونڈ
کہ جس سے زندہ ہو پھر حسرتوں کا دیار
نگاہِ بت میں ناداں وہ خمار نہ ڈھونڈ
تجھے آنا نہیں تو منہ پہ کہہ دو ناں یار
بہانے یوں نہ آنے کے ہزار نہ ڈھونڈ
یہاں اس دشت میں کب کوئی دیتا ہے ساتھ
سو دل دشتِ جفا میں غم گسار نہ ڈھونڈ
فرشتوں کے جہاں سے آیا ہے یہاں تُو
جہاں زادوں میں پر وہ اعتبار نہ ڈھونڈ
کہاں تو بھی مرے دل ڈھونڈتا ہے خلوص
بھرے صحرا میں ناداں آبشار نہ ڈھونڈ

میر شہریارؔ
اننت ناگ
[email protected]

کُھلنے لگے ہیں ہر سُو یاں پر دیار بہت
دیکھو کِھلے ہوئے گُل ہیں اثر دار بہت

پھو لوں کی ہے یہ وادی دیکھو محبتوں سے
کیسی سجائی خوشبو نے ہے بہار بہت

گُل ہیں جو اس چمن میں جھکتے ہیں اور نہ رُکتے
حالانکہ موسموں کے ہیں ٹکرائے خار بہت

ویران تھی جو بستی اُس میں بھی جاکے دیکھو
کیسے سجالئے ہیں اُلفت کے بازار بہت

پیشِ سلام قادری کا کشمیر عظمیٰ کو
جو حقیقت و سچائی کاہے علمبردار بہت

فاروق احمد قادری ؔ
کوٹی ڈوڈہ، جموں

جو کچھ بھی ہو مری خاطر دعا نہ کرلینا
طبیب میرے مجھے اب اچھا نہ کر لینا
ستم زدہ تو اذیت کا عادی ہے لیکن
وفورِ شوق میں اُس کو فنا نہ کر لینا
تو انتظار کا منظر نگاہِ شوق سے کھینچ
مگر یہ یاد رہے رابطہ نہ کر لینا
جمالِ یار کی وسعت کو بھانپنے کے لئے
خیالِ یار سے خود کو جدا نہ کر لینا
شبِ وصال جو آئی تو کہہ دیا اس نے
رہو قریب مگر آشنا نہ کر لینا
یہ انتظار میں جن کی گزار دیں عمریں
اگر وہ آئیں تو ان سے گلہ نہ کر لینا

جاذب جہانگیر
سوپور، بارہمولہ
موبائل نمبر؛7006706987

جینے کی مجھ کو آرزو نہ رہی
سو زباں پہ یوں گفتگو نہ رہی
جس کو تکتا تھا روز شب ہر دم
اب وہ حسینہ روبرو نہ رہی
بات اک بات کی تھی بس جانم
کہنے کو وہ ہی جستجو نہ رہی
سہ لیتا ہوں اب میں یہ غم بھی
اب مری زندگی میں تُو نہ رہی
غم اٹھاتا رہا ہے یہ طلحہؔ
زندگی میری ہو بہ ہو نہ رہی

جنید رشید راتھر @طلحہؔ
آونورہ شوپیان کشمیر
[email protected]

خواہش تھی اس کی بیٹا پڑھے، جائے چین تک
جو کم پڑھا لکھا تھا مگر دو یا تین تک
انبار مسئلوں کے کوئی کم نہ تھے مگر
ہمت کا ساتھ چُھوٹا، نہ چھوڑا یقین تک
رہنے کے واسطے وہ بھلا سوچتا بھی کیا
گھر وہ بنا سکا نہ خریدی زمین تک
پالا پڑا نہیں ہے اسے سیل فون سے
ٹی وی نہ اس کے پاس نہ سی ڈی مشین تک
راشن میں جو بھی ملتا ہے کھاتا ہے بس وہی
چاول نہیں نصیب ہے اس کو مہین تک
دل کا پڑا جو دورہ تو خود باپ کے لیے
بیٹے نے دل کے بدلے لگادی مشین تک
جس دل کے واسطے ہوئے برباد لاڈلہ ؔ
کوئی خبر نہ پہنچی ہے دل کے مکین تک

میم عین لاڈلہ
حوض اسٹریٹ ،کولکاتہ ، بنگال
[email protected]