غزلیات

ہمیں نہیں جو زمانے میں نذرِ دارد ہوئے
تیری گلی میں مسیحا بھی سنگسار ہوئے
یہ حادثے میرے سائے ہیں حادثہ نہیں ہوں
میں بھی بار بار ہوا یہ بھی بار بار ہوئے
چلی یہ کیسی ہوا کیسا آگیا موسم
کہ خار پھول بنے اور پھول خار ہوئے
نہ ہوا اُداس کہ مِل جائیں گے کہیں نہ کہیں
اگر زمین کے حالات سازگار ہوئے
کئی تو دیکھ کے کانٹے گھروں کو لوٹ گئے
جوننگے پائوں چلے وہ ہی تاجدار ہوئے
اُداس دیکھا کسی کو تو پاس جا بیٹھے
اِسی خطا پہ ہم گناہ گار ہوئے
نہ رنگ ہے نہ مہک ہے نہ گیت پنچھیؔ کے
تیرے بغیر یہ موسم بھی سوگوار ہوئے

سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ، کھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

چھپ چھپ کے نگاہوں سے نہ یوں تیر چلائیں
گر قتل ہی کرنا ہے تو پھر سامنے آئیں

تڑپیں گے ستم ان کے، لرزیں گی جفائیں
یاد آئیں گی جب جب بھی انہیں میری وفائیں

مدت ہوئی ٹکرائے کسی شیش بدن سے
اب تک میرے کانوں میں کھنکتی ہیں صدائیں

پتھریلے راستے ہیں کڑی دھوپ ہے سر پر
جو پھول سے پیکر ہیں میرے ساتھ نہ آئیں

چلتا ہوں بظاہر تو اکیلا ہی سفر میں
رہتی ہیں میرے ساتھ مگر ماں کی دعائیں

کہنے کو اِک دیا ہوں میں خستہ مکان کا
ڈرتی ہیں پھر بھی مجھ سے زمانے کی ہوائیں

ہے ان کے لبوں پر بھی عجب تشنگی رفیق ؔ
پھرتے ہیں جو شانوں پہ لئے کالی گھٹائیں

رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
سابق آفس سُپرانٹنڈنٹ BSNL

اب نہ کچھ اچھا لگے ہے
حادثہ دنیا لگے ہے

آج کیوں منظر یہ سارا
واقعہ گذرا لگے ہے

یہ ترا رونا بِلکنا
اِک تماشا سا لگے ہے

کیا پلٹ آئی کہانی
دشت پھر دریا لگے ہے

میں شروع کب ہو گیا ہوں
سوچتا لمحہ لگے ہے

مشتاق مہدی
ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053

دل میں اُن کی یاد ہے
گھر میرا آباد ہے

یہ بے قراری عشق کی
لب یہ اک فریاد ہے

اب کہاں وہ کیفیت
جو ہمارے بعد ہے

اُنکی ٹھہری دل لگی
اور میرا دل برباد ہے

پہلے صورتؔ تھے مرے
اب تو اُن کی یاد ہے

صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

خوب ہنگامہ ہوا ہے چاند پر
ہر کوئی جانے لگا ہے چاند پر

نقش قدموں کے ہمارے درج ہیں
ہم نے پاؤں رکھ دیا ہے چاند پر

فخر سے اونچا ہوا سر چاند سا
پاؤں میرا جب پڑا ہے چاند پر

غور سے تکتے رہے ہم چاند کو
خود نشاں اپنا بنا ہے چاند پر

چوم لی ہم نے جبیں جب چاند کی
مثلِ تارا نور سا ہے چاند پر

عشق کی معراج ہے، جگ نے کہا
حسن بھی رہنے لگا ہے چاند پر

دیکھ لو شاہدؔ نئی دنیا ہے یہ
گھر میرا بھی بن گیا ہے چاند پر

علی شاہد ؔ دلکش
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج
[email protected]

تیرےعارض شفق کی سُرخی لئے گُلاب ہے تو
کہیں چٹکتی کلیلوں کی تاثیر لئے شباب ہے تو
ایسے خوابوں میں ، خیالوں میں بسا کے تم کو
میرے وجود پر جیسے نقشِ بر آب ہے تو
گُزشتہ لمحوں کی یادوں کو ٹٹولتا ہوں جب
میرے خّوابیدہ ماضی کی رُوشن کتاب ہے تو
ہے مُسلسل تیری یادوں کی گردش میرے سر بسر
دل کے اتھاہ سمندر میں موجوں کا اِضطراب ہے تو
شب وروز ورق اُلٹتا ہوں اپنے پارِینہ ماضی کے
میرے بیتے لمحوں کا لاحاصل حساب ہے تو
اب خوابوں میں بھی تیرا گُزر ہو ممکن کیسے !
جیسے صحراؤں میں نظر آئے سراب ہے تو
اب بھی کانوں میں رس گُھولتی تیری سانسوں کی کھنک
دل کے تاروں کو جیسے چھیڑتا جائے مِضراب ہے تو
پردۂ شب کی ظلمُت اب چاک ہو مشاقؔ
ہو نمودِ سحر جسے وہ آفتاب ہے تو

خوشنویس میر مشتاقؔ
ایسواننت ناگ ، کشمیر
[email protected]

تم نے تو پرانے ہی نشانات گنے تھے
لیکن پسِ پردہ بھی تو کچھ زخم نئے تھے

اب ہم کو کوئی دیکھ کے یہ کہہ نہیں سکتا
ہم لوگ محبّت کے حوالے سے ملے تھے

صد شکر کہ تونے مجھےگھٹنوں پہ گرایا
گرتے ہی مرے ہاتھ دعاؤں کو اُٹھے تھے

اوروں کی ضرورت پہ نظر جاتی بھی کیسے
ہم اپنے مفادات کے ملبے میں دبے تھے

مجنوں بڑے سیراب تھے صحراؤں میں لیکن
ہم شہر کے چوراہے پہ پیاسے ہی کھڑے تھے

شہروں میں تجھے ڈھونڈنا آسان نہیں ہے
جنگل کے سبھی راستے پہچانے ہوئے تھے

صحرا سے محبّت کی ندی جاتی تھی ہو کر
مجنوں نے سبھی بند قمرؔ کھول دئے تھے

عمران قمر
رکن پور، شکوہ آباد اتر پردیش

بیچ رستے ہی ہمیں چھوڑ کے جانے والے
تو نے اچھا نہ کیا ہاتھ چھڑانے والے

ساتھ کچھ دیر اگر اور نبھایا ہوتا
ہم ہتھیلی پہ تھے سورج کو اُگانے والے

رات جنگل کے پرندوں میں بسر ہوتی ہے
خوب پہچانتے ہیں ہم کو گھرانے والے

میں تو اپنوں کے تلخ لہجہ سے رویا ورنہ
یوں رُلا پاتے کہاں مجھ کو زمانے والے

دیکھنا تو بھی ذرا دشتِ تماشہ کل شب
قیس کے ساتھ ہیں ہم خاک اُڑانے والے

جاگنا کرنوں کی دستک پہ ہی راہیؔ اب تو
جا چکے ہیں وہ تجھے صبح جگانے والے

عاشق راہی
اکنگام اننت ناگ
موبائل نمبر؛6005630105

تجھ کو مجھ سے یاری ہے
بندا کاروباری ہے
یارو یہ کیسی یاری ہے
جان مجھے بھی پیاری ہے
تم نے شادی کر لی نا
دیکھو اب مری باری ہے
کتنی اچھی اس کی صورت
یار بہت ہی پیاری ہے
خالی بات نہیں یارو
اس نے آنکھ بھی ماری ہے
جو کہ چھپانا تھا دِکھتا ہے
کیسی پردہ داری ہے
اس کے غم میں مجھ کو یارو
کیسی بے قراری ہے
آج کے بعد نہیں روٹھیں گے
یہ وعدہ سرکاری ہے
میر نے مجھ سے یہ کہا تھا
شوق ؔیہ پتھر بھاری ہے

شوق ارشد
مڑواہ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9103023539