صحافت کا معیاراور خودساختہ صحافیوں کاطومار؟ لمحۂ فکریہ

غازی عرفان خان

صحافت وہ فعل ہے جس میں انسان صحیح اور معتبر معلومات کو جمع، ترتیب، اور تبصرہ کرکے عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ صحافت کے کچھ اصول بھی ہیں جن کو مد نظر رکھنا ایک صحافی کے لیے لازمی ہے۔ ان کے اصول و ضوابط میں شفافیت، حقائق کی تصدیق، بے طرفی، اخلاقیت اور معتبر مواد کی تحقیق اور اشاعت شامل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ذمہ داری، ذہنی سلامتی، اور مواطنوں کے حقوق کی حفاظت بھی اہم اصول ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا میں صحافت کا ایک الگ ہی معیار ہے لیکن کشمیر میں صحافت کی دھجیاں اڑا دیں گئی، اِکا دُکا چھوڑ کر کشمیر کے اکثر صحافی اپنا نام اور اپنی چینل کا نام یا ٹی آر پی بڑھانے میں لگے ہیں ، اصل صحافت کا تو کشمیر میں کب کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ حالیہ گنڈبل واقعہ میں خود ساختہ صحافیوں نے جو کردار پیش کیا ہے وہ تو درجہ اخلاقیات سے بھی کوسوو دور تھا۔ بلکہ انہوں نے تو ساری حدیں پار کردیں۔
دنیا بھر میں اگر کہیں بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو سب لوگ اپنا کام چھوڑ کر اس حادثے میں پھنسے لوگوں کی مدد کے لیے دوڑتے ہیں، لیکن کشمیر میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ جہاں یہ لوگ ویڈیوز بنانے میں مشغول رہتے ہیں ،وہی دوسری طرف تو کچھ خودغرض صحافی اور اپنے مفاد کی خاطر اس طرح کے واقعات کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ ان کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہمارے الفاظ سے اُن لوگوں پر کیا گزرتی ہوگی۔ اپنی چینل کی ٹی آر پی (TRP) بڑھانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک گر جاتے ہیں۔ پچھلے سال بڈگام کے واقعہ پر سوشل میڈیا پر فیس بک صحافیوں نے کوئی بھی کسر باقی نہ چھوڑی، حد تو یہ ہے کہ ایک فیس بک صحافی نے مقتولہ کی ماں سے سوال پوچھا کہ عارفہ کے قتل کو لے کر آپ کو کیسا لگا؟ میں سوچ رہا ہوں کہ اس وقت اُس ماں پر کیا گزری ہوگی ، ایسے خودساختہ صحافی اور یوٹیوبرز ،ان جیسے واقعات کو غنیمت جان کر اپنے چینل کی پرموشن اور محض کچھ ویوز اور شیئرز پانے لیے کس حد تک گر جاتے ہیں۔ یہاں خودساختہ صحافیوں نے صحافت کے معیار کو گرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔
ڈاکٹر اویس احمد کا مضمون ’’خود ساختہ صحافت‘‘ پچھلے سال کشمیر عظمیٰ کے شمارے میں آیا تھا، جس میں انہوں نے مختصر الفاظ میں صحافت کے گرتے معیار کے بارے میں چند سطریں قلمبند کی تھی ’’حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں سوشل میڈیا نے صحافت کی مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ، وہیں اس کے معیار کو گرانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ دیکھا جائے تو صحافت کے گرتے معیار کا باعث خود ساختہ صحافی اور اُن کی صحافتی اصولوں سے ناواقفیت ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ خبر کی’’خبری حیثیت سے نامانوسیت بھی ایک سبب قرار دیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
صحافت کی معیار میں کمی کا ایک بڑا باعث سوشل میڈیا ہے، جہاں اخبارات اور ٹی وی کے مقابلے میں صحافتی اصولوں کی کمی اور خبروں کی مصداقت کی کمی نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر غیر موثر خبریں بھی وائرل ہوتی ہیں جو حقیقتوں کی بجائے فیک ہوتی ہیں، اور اس کی وجہ سے لوگوں کی ناواقفیت بڑھتی ہے۔صحافت کو صحیح طرز پر اور اصولوں کے دائرے میں انجام دینے کے لیے مختلف راہیں ہوتی ہیں: اخلاقی اصولوں کی پیروی: صحافیوں کو اخلاقی اصولوں کی پیروی کرنی چاہئے، جیسے کہ سچائی، عدل، اور ذمہ داری کا تصور۔
موضوع پر تحقیقات:صحافیوں کو موضوعات پر پیشہ ورانہ تحقیقات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور صحیح معلومات کا استعمال کرنا چاہئے۔
توازن اور بیانیہ:صحافیوں کو توازن دیکھ کر خبروں کو پیش کرنا چاہئے، اور ان کا بیانیہ عدلیہ کی بنا پر ہونا چاہئے۔ منصفانہ نقطہ نظر:صحافیوں کو منصفانہ نقطہ نظر سے کام کرنا چاہئے، بغیر کسی جانبداری یاپسندیدگی کے۔
اعتمادی مواقع:صحافتی کارکنوں کو اعتمادی مواقع پر عمل کرنا چاہئے، جہاں وہ بغیر رکاوٹ کے حقیقت کو پیش کر سکیں۔
ان تمام راہوں کو انجام دیتے ہوئے، صحافیوں کو صحافت کے اصولوں کے دائرے میں اپنا کام کرنا چاہئے۔
[email protected]