’’ شکتی پیٹھ‘‘۔ امر ناتھ یاتراکشمیر میں ! ہندوؤں کا یہ تیرتھ استھان اور پوِتر غار گلیشروں کی کوکھ میں ہے

 رشید پروینؔ سوپور

شکتی پیٹھ امر ناتھ گپھا کی یاترا آج ۲۹ ؍جون سے شروع ہوجا ئے گی اور لگ بھگ دو مہینوں یعنی ۱۹ ؍اگست تک جاری رہے گی ،پہلے یہ یاترا چودہ پندرہ دنوں تک محدود رہا کرتی تھی لیکن اب اس کا دورانیہ دو مہینوں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ سرکار اس یاترا کے سلسلے میں اپنی طرف سے بہت سارے انتظامات زائرین کے لئے کرتی ہے اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہاں آنے والے یاتریوں کو اس دشوار گذار سفر میں تمام سہولیات اور آسانیاں میسر ہوں۔سارے بھارت میں شکتی پیٹھ( قوت کے سر چشمے)کی تعداد اگر چہ ۵۱ تسلیم کی جاتی ہے اور امر ناتھ پچاسویں شکتی پیٹھ جگہ مانی جاتی ہے، جہاں سارے بھارت سے اب لاکھوں کی تعداد میں ہندو زائرین امرناتھ گپھا میں شیو لنگ کے درشن سے مستفید ہوتے ہیں، اس سے پہلے کہ اس سفر کے مراحل کا تذکرہ ہو یہ جاننا ضروری ہے کہ ’’شکتی پیٹھ‘‘ کیا ہے اور ان کا وجود کیسے ہوا ہے؟ ہندو دھرم کی قدیم کتابوں میں اس کا تذکرہ ہے ہندو میتھا لوجی کے مطابق یہ مقامات یوں وجود پاگئے ہیں کہ ’’ ستی، جس سے پاروتی ماتا یا اوما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ،انسانی جسم میں پرجا پتی کی بیٹی تھی، جس نے اپنے باپ کی خواہش کے خلاف لارڈ شیوا سے بیاہ رچایا۔دکھشا پرجا پتی نے ایک بہت بڑا یگیہ کیا، جس میں اس نے دیوی دیوتاؤں کو مدعو کیا لیکن لارڈ شیواہ کو اس یگیہ میں نہیں بلایا ،ستی دیوی نے اس یگیہ میں شیواہ کی خواہش کے خلاف شمولیت کی جہاں اس کے باپ نے تمام دیوی دیوتاؤں کے سامنے ستی کی بے عزتی کی،جس سے ’ستی ‘برداشت نہیں کر پائی اور اپنے پران تیاگ دئے۔ اس صدمے سے لارڈ شیواہ بے حد مجروع ہوئے اور ویرا بھدرا کے ذریعے سے دِکھشا کا یگیہ تباہ کیا ، پرجا پتی کا سر کا ٹا،اس کے باوجود غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو’ستی ‘کا بے جان جسم ا ٹھا کر ہر سو تانڈو (وناشک ) ناچ شروع کیا ، دیوتاؤں نے اس سے ایسا کرنے سے روکا، اور ویشنو دیوتا نے اپنے چکر سے ستی کے جسم کو کاٹ کر ۵۱ ؍حصوں میں تقسیم کیا جو بھارت کی مختلف جگہوں اور مقامات پر گرتے چلے گئے اور جہاں جہاں یہ اعضا گرے وہیں’ ’شکتی پیٹھ‘‘اَستھان وجود میں آگیا کیونکہ یہ قوت کے سر چشمے تھے اور تب سے ان استھانوں کی ہزاروں برس سے یاترا ہوتی ہے اور عقیدت مند ان مقامات کو مقدم اور مقدس سمجھ کر ان کے درشن کرتے رہتے ہیں۔امرناتھ گپھا ڈسڑکٹ اننت ناگ ، لدر وادی میں واقع ہےاور یہ ۸۸۸۳میٹر یعنی ۷۵۶،۱۲فٹ کی بلندی پر اسلام آباد سے ۱۶۸ کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے ۔پہلگام کے بارے میں اکثر و بیشتر لوگ جانتے ہیں کہ خوابوں کی سر زمین ہے اور کشمیر آنے والے لوگ لازمی طور پر یہا ںآکر ابدی اور ازلی حسن کا ادراک کر لیتے ہیں، یہاں سے ہی اصل میں امر ناتھ کا سفر شروع ہوتا ہے اور ایک طرح سے یہ حسین سر زمین امرناتھ کے لئے بیس کیمپ مانا جاتا ہے۔ یہ ہندوؤں کا تیرتھ استھان اور پِوتر غار گلیشروں کی کوکھ میں ہے ،چاروں طرف گلیشروں کا حصار ہے اور راستہ بھی دشوار گذار ہے۔ لیکن درشن کی چاہت اور آرزو کشاں کشاں اطراف اکناف اوردور دراز کے بھارت واسیوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے ، یہ برف پوش پہاڑ اور ہزاروں برس کے گلیشر انسانی سوچوں کو دستک بھی دیتے ہیں اور اس گپھا کا یہاں ہونا قدرت کی نشانیوں میں ہی ایک نشانی سمجھی جاسکتی ہے ۔ گلیشروں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کے بیچ میں یہ ایک وسیع غار ہے،یہ گپھا بہت بڑی ہے ، اس میں داخل ہونے کا دروازہ لگ بھگ چالیس گز اور اس کی بلندی ۷۵ فیٹ ہے اور یہ گپھا پہا ڑکے اندر نیچے ۸۰ فیٹ ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ گپھا حیران کن ہے ، جس کی اہمیت شیو لَنگھم سے بنتی ہے اور اسی شیو لنگھم کی وجہ سے یہ تیرتھ استھان بھی ہے اور مشہور و معروف بھی ہے۔ یہ شیولنگھم کیا ہے اور اس کے ساتھ کئی کہانیاں بھی جڑی ہیں لیکن سب سے پہلے یہ بات کہ لِنگھم اس غار کی چھت سے سے جون جولائی میں ٹپکنے والے پانی کے قطروں سے وہ شکل اختیار کرتا ہے جس سے لِنگھم کہا جاتا ہے۔ یہ پانی کے قطرے چھت سے فرش پر آتے ہیں جم جاتے ہیں اور اس طرح آہستہ آہستہ لنگھم کاروپ دھارلیتے ہیں اور جب مکمل ہوتا ہے تو یہی یاتریوں کے اصل درشن دن ہوتے ہیں ،اس لنگھم کو شیواہ کی phsical manifestation تصور کیا جاتا ہے جس کے درشن کے لئے لاکھوں عقیدت مند یہاں آجاتے ہیں ، اس لنگھم کے ساتھ پاروتی اور گنیش بھی یہاں موجود رہتے ہیںاور ان کی ماہئت بھی اسی طرح icecle سے ہی وجود پاتی ہے ۔لنگھم ہندو عقائد کے مطابق چاندکے ساتھ ہی گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ، لنگھم اگست تک آہستہ آہستہ پگھل کر معدوم ہوجاتا ہے ۔ ہندو میتھالوجی کے مطابق ہی لنگھم ، شیواہ کی نمائندگی کرتا ہےاور یہ وہ جگہ ہے جہاں شیواہ نے پاروتی کو ابدیت کا راز بتا دیا تھا، جس کی کہانی میتھالوجی میں یوں ہے۔ پاروتی نے کسی موڈ پر لارڈ شیواہ سے ابدی زندگی کا راز جاننا چاہا تھا ، شیواہ نے عرصے تک یہ بتانے سے گریز کیا، لیکن آخر ایک دن یہ راز اس پر منکشف کرنے کا فیصلہ کیا ، شیواہ مانتے تھے کہ یہ راز بتانے کے لئے ایسی جگہ تلاش کی جائے جہاں ان دو کے سوا کسی اور کے پہنچنے کا یا یہ راز ایکسپوز ہونے کا کوئی احتمال ہی نہ ہو، اس لئے شیواہ نے اس جگہ کا انتخاب کیا۔ شیواہ کو یقین تھا کہ اس جگہ گلیشروں کے بیچ میں اتنی اونچائی پر صرف دیو ی دیو تا ہی پہنچ سکتے ہیں، اس لئے اس جگہ کے لئے سفر شروع ہوا اور دوران سفر وہ اپنے پیچھے اپنی ساری چیزیں مختلف مقامات پر چھوڑتے گئے ، جیسے انہوں نے ’’نندنی ‘‘میں اپنا بیل چھوڑا۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ تصویروں میں وہ ہمیشہ بیل پر ہی سوار دکھائی جاتے ہیں۔ چندن واڑی میں شیواہ نے اپنے بالوں سے چاند کو خارج کیا اور آگے بڑھے تو شیش ناگ میں اپنے ناگ کو چھوڑ دیا، جو تصویروں میں ان کے گلے میں ہمیشہ آویزاں دکھائی دیتا ہے۔ پھر پنج ترنی میں اپنے زندگی کے وہ پانچ عناصر چھوڑ دئے جن سے زندگی کا وجود ہے۔ جیسے زمین ، پانی ، آگ ، ہوا اور آسماں۔ یہاں تک کہ اپنے بیٹے گنیش کو بھی( مہاگنا ))چوٹی پر چھوڑ کر آگے بڑھے۔ اس تیرتھ استھان کے یاتری ان جگہوں سے ہوکر ہی گپھا تک پہنچ جاتے ہیں۔ ’’امر ناتھ ‘‘ کے مفہوم پر غور کیا جائے تو یہ دو لفظوں پر مشتمل ہے ، ’’امر ‘‘ جس کے معنی etenal یعنی لافانی بنتا ہے اور ناتھ کے معنی لارڈ یا دیوتا ہی ہوسکتے ہیں ۔ ہندو عقائد کے مطابق شیواہ نے اپنی دیوی پاروتی کو یہاں تک اس لئے لایا تھا کہ وہ راز جو وہ منکشف کرنے والے تھے ،کوئی تیسری شئے اس سے واقف نہ ہوسکے۔ ایسا کہاجاتا ہے کہ شیواہ نے ان سب چیزوں سے جو انہوں نے مختلف جگہوں پر چھوڑی تھیں ، چھٹکارہ پایا تو سب سے پہلے دونوں نے ’’تانڈو ‘‘ناچا تھا۔ اور اس کے بعد پاروتی کو راز بتانے سے پہلے مزید احتیاط کے طور پر کال اگنی کو پیدا کرکے اس سے آس پاس کی ہر چیز کو بھسم کرنے کا حکم دیا ، لیکن خود شیواہ کے تخت کے نیچے کبوتروں کے دو انڈے کسی طرح موجود رہے ،جن سے بعد میں کبوتروں کی جوڑی نکلی ، جنہوں نے یہ راز جان لیا تھا اور ہندو عقائد کے مطابق یہ کبوتروں کی جو ڑی بھی امر ہوچکی تھی اور آج تک بہت سارے یاتری یہ دعویٰ وقفے وقفے سے کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے خوش نصیبی سے اس کبوتر جوڑی کو یہاں پرواز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ خیال رہے کہ میں کسی بات پر کوئی رائے زنی یا تبصرہ نہیں کر رہا ہوں بلکہ وہ لکھ رہا ہوں جو اس غار سے متعلق مختلف قدیم اہل ہنود کی کتابوں میں اور دوسرے ذرایع سے معلوم ہوا ہے۔بہر حال شیواہ نے اسی جگہ اپنی دیوی پاروتی کو اس راز سے آگاہ کیا۔ ظاہر ہے کہ یہاں لارڈ شیواہ اور پاروتی نے قیام کیا ہے اور شیو لنگھم جو کہ شیواہ کی نمائندگی کرتا ہے اگر اس انداز میں نہیں بھی بنتا تب بھی یہ جگہ مقدس ہی رہتی اور تب بھی اس جگہ کو پِوترستھان کا مقام حاصل رہتا۔ آپ کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ اس سفر اور گپھا تک پہنچنے کے دوران جن جن مقامامات پر شیواہ پاروتی نے پڑاؤ کیا ہے، وہ سب جانی مانی اور ہندو کے لئے متبرک مقامات میں ہی تصور کی جاتی ہیں ، جن میں پہلگام ، چندن واڑی، شیش ناگ ، مہا گنا اور پنج ترنی ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ گپھا ۵۰۰۰ برس پہلے سے ہی موجود ہے ، کلہن اور دوسرے مورخوں نے کشمیر کے اوریجن کو’ کشپ ‘سے مانا ہے جنہوں نے ایک بہت بڑی جھیل بلکہ چھوٹے سے سمندر کے پانی کی نکاسی ممکن بنا کر وادی کا روپ دیا ہے ، لیکن یہ کسی طرح قرین قیاس نہیں کہ وہ جھیل بہت زیادہ بلندی کی حامل رہی ہو۔ ظاہر ہے کہ بہت اونچے پہاڑ اور گلشر نامعلو م زمانوں سے اسی طرح موجود رہے ہوں گے اور انہیں صرف پانچ ہزار سال تک محدود کر نا عقل میں نہیں سماتا اور اس طرح ان گلیشروں کے بیچ میں یہ غار پہلے ہی سے موجود رہا ہوگا۔ اور اس میں کوئی دو رائیں نہیں کہ یہ انسانی ہاتھوں کا کوئی کرشمہ نہیں رہا ہوگا ، ایک سنسکرت کتاب’ ’برنگی شا سمہیتا ‘‘میں اس یاترا کی اوریجن سے متعلق یہ درج ہے کہ یہ ایک سادھو تھا، جس نے اپنے چیلوں کو اس استھان کی طرف پہلے توجہ مبذول کروائی اور انہیں لنگھم کے درشن کرنے کی ہدایت کی۔اس کے چیلے جب اس سفر پر روانہ ہوئے تو یہاں راستوں کے راکشسوں نے انہیں پریشان کیا اور آگے بڑھنے سے روک دیا۔ یہ چیلے واپس برنگی شا کے پاس فریاد لے کر آئے تو برنگی شا نے شیواہ کی پراتھنا کی اور لارڈ شیواہ نے انہیں ایک تبرک عطا کیا ، جسے ’’چھڑی مبارک ‘‘کا نام دیا گیا اور تب سے ہی یاتریوں کا سب سے بڑا جتھ منظم طور پر اس چھڑی مبارک کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ایک اور فوک کہانی کی رو سے یہ غار ۱۸۵۰ میں بوٹا ملک ایک مسلم گڈرئے نے دریافت کیا تھا ، اس کی بھی ایک تحیر آمیز کہانی بتلائی جاتی ہے کہ اس بوٹا ملک کو یہاں پر ایک سادھو ملا تھا ،جس نے اس سے کوئلے کا ایک تھیلہ تھما دیا اور جب گڈریا گھر پہنچا تو کوئلہ سونے میں تبدیل ہوچکاتھا ، گڈریا اس سادھو کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں تک آپہنچا اور سادھو کے بجائے اس سے یہ گپھا نظر آئی ا ور اس طرح باہری دنیا کو اس گپھا کے بارے میں معلوم ہوا ، کہا جاتا ہے کہ بوٹا ملک کی فیملی ایک عرصے تک اس غار کی ا نچارج یا منتظم رہی ہے ، لیکن ۲۰۰۰ سے شرائن بورڈ نے سارا انتظام سنبھال لیا ہے ۔
[email protected]>