شرعی وراثت کے قانون کو چیلنج مسلم خاتون کی درخواست پر حکومت کو سپریم کورٹ کا نوٹس

 یواین آئی

نئی دہلی// سپریم کورٹ نے پیر کو حکومت ہند اور ریاست کیرالہ کو رٹ درخواست پر نوٹس جاری کیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا وہ شخص جو پیدائشی مسلمان ہے لیکن وہ اب غیرمومن ہوچکا ہے، اسے شرعی وراثت کے قانون کا پابند نہ بنایا جائے۔یہ درخواست کیرالہ کی مسلم خاتون صفیہ پی ایم نے دائر کی ہے، جس میں اس نے شرعی قانون وراثت کی دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب مومن نہیں ہے اور اس لیے اس پر مسلم پرسنل لا کے بجائے ہندوستانی قانون وراثت ایکٹ 1925 کا اطلاق کیا جائے۔درخواست گزار خاتون سابقہ مسلمانوں کی تنظیم کی چیئرپرسن ہے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بنچ نے تفصیلی بحث کے بعد اسے ایک “اہم مسئلہ” قرار دیتے ہوئے اس درخواست پر حکومت ہند اور ریاست کیرالہ کو نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔بنچ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹرمنی سے کہا کہ وہ عدالت کی مدد کے لیے ایک لا افسر کو نامزد کریں۔ معاملے کی اگلی سماعت جولائی 2024 کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔بنچ کا ابتدائی طور پر موقف تھا کہ جب درخواست گزار نے کسی قانونی شق کو چیلنج نہیں کیا ہے، توعدالت آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت کسی شخص پر پرسنل لاء کے عدم اطلاق سے متعلق بیان کیسے دے سکتی ہے۔بنچ نے درخواست گزار کی اس تجویز پر بھی تحفظات کا اظہار کیا کہ کسی غیر مومن پر شریعت ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ چسٹس چندرچوڑ نے کہا، “جس لمحے آپ مسلمان کے طور پر پیدا ہوئے ہیں، آپ اسی وقت سے پرسنل لاء کے پابند ہیں۔”درخواست گزار کے ایڈوکیٹ پرشانت پدمنابھن نے کہا کہ پرسنل لاء کے مطابق کوئی مسلمان شخص اپنی جائیداد کے 1/3 سے زیادہ حصہ وصیت کے ذریعے نہیں دے سکتا ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ درخواست گزار کے والد بھی مومن نہیں ہیں۔