سماجی ذہانت کا سہارا سب سے پیارا

سید مصطفیٰ احمد

بچپن سے ہم یہ بات لگاتار سنتے آرہے ہیں کہ انسان سماجی جانور ہے، وہ سماج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے، اس کی کُل ترقی سماج میں ہی ممکن ہے۔ سماج سے باہر وہ جانور کا روپ دھار سکتا ہے۔ اب جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق ہر کوئی اپنی بات کہنے کا حق رکھتا ہے۔ زندگی کے ہر نظریہ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر بغور مشاہدہ کیا جائے اور چیزوں کی گہرائی میں اُتر کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان سماج میں ہی جینا پسند کرتا ہے۔ اپنے جیسے لوگوں کے بیچ وہ اپنے آپ کو محفوظ پاتا ہے۔ وہ اپنی جیسی خواہشات رکھنے والے لوگوں کو دیکھ کر زندگی کا ایک مقصد بنا لیتا ہے اور اسی مقصد کے لئے ہر قسم کی سختی برداشت کرتا ہے۔ اس کشمکش میں اختلافات کے سو فیصد امکانات ہوتے ہیں اور کئی بار یہی اختلافات قتل،چوری اور ایک دوسرے کی عزت اچھالنے کی شکلوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ انسان مادہ پرست ہے، وہ چیزوں سے اَن دیکھی محبت کرتا ہے۔ اگر کبھی کبھاراس کی خواہشات پوری نہیں ہوتی ہیں تو وہ مایوسی اور افسردگی کی گہری وادیوں میں پہنچ جاتا ہے، جہاں سے نکلنا ناممکن سا لگتا ہے۔ چیزوں سے پیار انسان کے اندر جنم سے ہی ودیعت کیا گیا ہے۔ اس پیار کی ہی وجہ سے وہ رشتوں کے بندھنوں میں بھی بندھ جاتا ہے۔
جیسے کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ زیادہ تر مواقع پر ایک انسان اپنی امیدوں خلاف نتائج دیکھ کر سماجی ذہانت کی خوبی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ برتن جب ایک جگہ رکھے جاتے ہیں تو ان کے ٹکرانے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں، اکیلا برتن ٹکرانے اور شور کرنے سے محروم ہے۔ اس مثال کو یہ مایوس انسان سمجھنے میں ناکام ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس مایوسی کاانسان کو حقیقت کا ادراک نہیں ہے۔ اُس میں یہ بات پوری طرح ذہن نشین ہے کہ لوگوں کے درمیان رہنے میں اور پھر خواہشات کے متمنی ہونے کی وجہ سے اس کے دِل ٹوٹنے اور مایوس ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ گھر سے ہی اس کی خواہشات کی مخالفت ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر مارکیٹ میں پہنچ کر مختلف لوگوں سے اُٹھنے بیٹھنے کے بعد اس کی حالت نیم مردہ انسان کی سی ہوجاتی ہے ،جو اُسے سوچنے کی قوت سے قاصر کرتی ہے۔ اس طرح حالات خراب سے خراب تر ہوجاتے ہیں۔ ان گھمبیر حالات میں سماجی ذہانت کی ضرورت پڑتی ہے،اور اس کے بہت سارے فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ ہے کہ انسان اس وصف کی بدولت ایک باادب اور باشعور زندگی گزار پاتا ہے۔ جب ایک انسان کی خواہشات کا گلا، وہ لوگ کاٹتے ہیں جو انسانیت کے نچلے پائیدان پر براجمان ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ اس کی جائز ضروریات پر ناجائز قبضہ بھی کرتے ہیں، اُس وقت اپنی اور پوری قوم کا خیال رکھتے ہوئے اپنے حق کی قربانی دینے کا نام ہی سماجی ذہانت ہے۔ اس سے نفرت اور حسد کی آگ ہمیشہ ٹھنڈی رہتی ہے۔ سماجی ذہانت کے رنگ میں رنگا ہوا انسان کبھی بھی سماج دشمن عناصر سے متاثر نہیں ہوتا ہے۔ وہ سماجی دشمنوں کی حقیقت کو جاننے کی بھرپور کوششیں کرتا ہے اور بغیر اُن کی راہ پر چلتے ہوئے اپنے خوبصورت راستے پر تنہا چلتا رہتا ہے۔ راہ میں بچھائے ہوئے کانٹے اس کے پیروں کوتو لہولہان کرتے ہیں اور اونچے پیڑ پر بیٹھا بوم اس پر ملامت کرتا رہتا ہے۔ لیکن اس کی ذہانت کی انتہا ایسی ہے کہ گوتم بدھ کی طرح اُس کو گالی اب گالی نہیں لگتی ہے۔ گالی اس شخص سے ٹکرا کر راکھ ہوجاتی ہے اور اس قسم کی سوچ اور انسانیت کے اس درجے کو ذہنی ذہانت کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے۔ مزید برآں جب ہر طرف لوگوں کو زندگی سے ہی نفرت ہونے لگی ہو، اس وقت جو انسان جینا سکھا دے، وہ سماجی ذہانت کی معراج پر پہنچ گیا ہوتا ہے۔
سماجی ذہانت طلبہ کے لئے بھی مرہم کی طرح ہے۔ آج کے rat-race competition کی دنیا میں جہاں ایک طالب علم سماج سے لگ بھگ کٹ ہی گیا ہے، سماجی ذہانت کا رول اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک طالب علم اس قسم کی ذہانت کی بدولت زندگی کے بہت سارے مسائل کو بہت آسانی کے ساتھ حل کرسکتا ہے۔ یہ ذہانت اس کی جذباتی صحت کے علاوہ ذہنی صحت کا بھی بھرپور خیال رکھتی ہے۔ کچھ اخباروں میں، میں نے SQ کو عام کرنے کی وکالت کی بہت ساری تجویزیں دیکھ کر اس مضمون کو قلمبند کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ ان سارے مضامین میں جس بات پر زور دیا گیا تھا، وہ یہ ہے کہ فرد سے لے کر افراد تک ہر کسی کو سماجی ذہانت کے بنیادی لوازمات سے روشناس کرایا جائے۔ وقت کی ضرورت بھی ہے کہ جب لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوکے بھی ایک دوسرے سے کوسوں دور ہےتو سماجی ذہانت کو عام کرنا لازمی بن جاتا ہے ۔ اس کے لئے سب سے پہلا قدم جو اٹھایا جاسکتا ہے، وہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو پہچاننے کی کوششیں کریں۔ اس سے دوسروں سے دھیان ہٹ کر اپنی ذات کی طرف مختص ہوجائے گا۔ Pablo Neruda اپنی ایک نظم ” Keeping Quiet” میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتےہیں کہ دنیا بھرکے لوگ دنیا کے ہنگاموں میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔ اگر لوگ باتیں کرنے کے بجائے، پورا دھیان اپنے اوپر دینا شروع کریں تو اس بات کے صد فیصد امکانات ہیں کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ اس نظم میں آفاقی اصول کی طرف قارئین کا دھیان مبذول کروانےکو کوشش کی گئی ہے۔ اس کو ہم سماجی ذہانت کی ایک مثال کے طور پر لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیمی اور مذہبی اداروں میں SQ کا ایک الگ مضمون ہونا چاہئے۔ Sociology کا مضمون سماج کی تاویل ہے۔ سماج کس طرح بنتا ہے، یہ Sociology کا موضوع ہے۔ اس کے برعکس سماجی ذہانت کا موضوع ایک مکمل اور باشعور زندگی گزارنے کا ہے اور جاتے جاتے ہم سب کو اپنے اندر سماجی شعور لانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ،ہمیں چاہیے کہ ہم سماج کے اوپر بوجھ بننے کے بجائے ہمت اور دوراندیشی کے نقوش چھوڑ جائیں، اپنے حصے کا کام بہت سارے طریقوں سے کئے جاسکتے ہیں اور موجودہ زمانے کو دیکھ کر سماجی ذہانت کو فروغ دینا سب سے اہم کام ہے۔ امید ہے کہ لوگ اس حساس موضوع کی طرف سوچنا شروع کریں گے۔
(حاجی باغ، بمنہ، بڈگام ،رابطہ۔9103916455)
[email protected]