رمضان المبارک کی آمد اور خواتین استقبال رمضان

شائستہ مبارک بخاری

مہینوں کے سردار ” ماہ رمضان” کی آمد آمد ہے ،یہ وہ پاک مہینہ ہے جسے”شہرالمواسات ۔” یعنی خیر خواہی کا مہینہ کہا گیا ہے ۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کے لئے خاص دعا فرمایا کرتے تھے کہ’’ اے اللہ ہمیں رمضان نصیب فرما‘‘الحمداللہ ہم سب خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک اور رمظان نصیب فرمانے والا ہے انشااللہ ،اور ایک بار پھر ہمیں یہ موقع فراہم ہوگا کہ ہم نہ صرف اس بابرکت مہینے کے فیوض وبرکات سے فیض یاب ہوکر اپنی مغفرت کرواسکیں بلکہ اپنے نفس اور اپنی روح کی تربیت کر سکیں ۔

یہ مبارک مہینہ دراصل مسلمانوں کی تربیت کا ہی مہینہ ہے تاکہ ہم عملاً آداب زندگی کا تجربہ حاصل کر سکیں ۔لیکن بدقسمتی سے بیشتر مسلمان محض فاقہ کشی کو روزے کا نام دیتے ہیں اور صبح سے لے کر شام تک بھو کا رہ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عید منانے کے مستحق ہوگئے ۔افسوس، ایسے ہی لوگوں کے لئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے،’’بہت سے روزے دار ایسے ہیں ،جنہیں اپنے روزوں سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘(مسند امام احمد)

خواتین کی بات کریں تو اکثر خواتین اس بابرکت مہینے کو بھی محض ایک رسم کی طرح نبھاتی ہیں ، رمضان شاپنگ،گھر کی صفائی ،رسوئی اور دیگر گھریلو کاموں میں ہم اس قدر محو ہو جاتی ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ کیسے یہ با برکت مہینہ ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ،جہاں ہمیں چاہیے تھا کہ ہم پہلے سے ہی اس مہینے کی تیاریوں میں جٹ جاتی تاکہ اس پاک مہینے میں ہم معمول کے کاموں کے بجائے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنی آخرت کو سنوارنے میں گذارتے لیکن ہماری نادانی دیکھئے کہ جو کام ہمیں سال بھر رہ جاتے ہیں وہ بھی ہمیں اسی مہینے میں یاد آتے ہیں اور نتیجتاً مہینے کے آخر میں تھکاوٹ کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ گھر کی صفائی اور سجاوٹ تو ہوجاتی ہے مگر ہماری روح پیاسی اور ہمارے دل میلے ہی رہ جاتے ہیں ۔

اس میں کوئی شق نہیں کہ الحمداللہ گھر کے کام اور گھروالوں کی خدمت کرنا بھی ایک عظیم عبادت ہے لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم اس کوشش میں رہے کہ بنیادی ضروریات کے کام نپٹا کر زیادہ سے زیادہ وقت ذکر و اذکار ،تلامت قرآن اور دیگر نفلی عبادت میں گزارے۔ کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جب فرائض کا ثواب 70 گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور ہماری نفلی عبادات پر فرض کے برابر ثواب ملتے ہیں ، ہمیں چاہیے کہ کام کرتے کرتے بھی ہونٹوں پر ذکر اذکار جاری رکھیں ۔ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر ہم صرف ایک بار بسم اللہ پڑھے تو اس کے عوض ہمارے اعمال نامے میں 19 ثواب لکھ دیئے جاتے ہیں تو سوچیںذرا کھانا پکاتے ہوئے،جاڑو دیتے ہوئے اگر ہم اَدھرُ ادھر کی باتوں کے بجائے محض اسم عظم ورد رکھے تو کس قدر ثواب حاصل کرسکتے ہیں، اس کے برعکس ہم خواتین اکثر یا تو اللہ کی ناشکری کرتے ہوئے نظر آتی ہیں یا پھر دوسروں کی برائیاں کرتے ہوئے ، بلکہ نفلی عبادات تو دور ہم فرض عبادات کے طے بھی غفلت برتتی ہیں ،یہاں تک کہ کچھ خواتین بہانوں کی تلاش میں رہتی ہے کیسے کوئی روایت ملے تاکہ ہم روزہ رکھنے سے بچ سکیں،ہماری وادی میں ایک عجیب سا ٹرینڈ چلا ہے کہ رمضان کا مہینہ آتے ہی اکثر لڑکیاں سسررال سے مائیکے چلی آتی ہے تاکہ انہیں روزہ خوری میں کوئی پریشانی پیش نہ آئے، اور بعض خواتین تو معمولی سی بیماری کا بہانہ بنا کر روزے رکھنے سے گریز کرتی ہے،بلا شبہ ہمارا دین اتنا وسیع ہے کی بیماری ،حاملہ یا پھر دودھ پالانے وألی ماۄں کو یہ اجازت دیتا ہے کہ اگر انہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ روزوں کی وجہ سے ان کی صحت پر برا اثر پڑ سکتا ہے تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے۔ لیکن یہ نہ بھولیں کہ وہ روزے ہمیں معاف نہیں ،اسلئے ہمیں چاہیے کہ انتہائی ضرورت پڑنے پر ہی روزہ چھوڑے اور صحت یاب ہوتے ہی وہ روزے پورے کرے، ہمیں چاہیے کہ اپنے گھر کی چھوٹی بچیوں کو آج سے ہی روزہ رکھنے کی ترغیب دے ،سحری میں انہیں ضرور اٹھائے اور جتنی دیر رہ سکتےہیں، اتنی دیر ہی سہی روزہ رکھنے دے، بلکہ انہیں روزوں کی فضیلت کے بارے میں اکثر بتاتے رہے ،موبائل پر وقت گزارنے کے بجائے،مطالعہ کا وقت بڑھائیں،بلکہ دینی علوم پر مبنی کتابوں کو زیادہ وقت دے بہشتی زیور کا ریوجین ضرور کریں چونکہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،علم کی قلیل مقدار بھی عبادت کی کثیر تعداد سے بہتر ہے۔‘‘

ہمیں چاہیے کہ غیبت کے ناسور سے دور رہ کر اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں ہم میں حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوئی کمی کوتاہی تو نہیں رہی ، کوئی گناہ تو سر زد نہیں ہوا،کہیں دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے اٹھاتے ہم خود اس قابل تونہیں ہو گئے ہیں کہ آخرت میں بے شمار انگلیاں ہمیں اپنا نشانہ بنائیں، کیاہماری زندگی فاطمہ الزھراء اور اماں عائشہ ؓ کی زندگی سے میل کھاتی بھی ہے؟ یقیناً اپنا محاسبہ کرکے ہماری آنکھیں پر نم اور ہمارے سر جھک جائیں گے ۔لیکن یہی وہ موقع ہے جب ہم دربار خداوندی میں سر بہ سجود ہو کر اپنی ساری لغزشوں کو معاف کروا کر ایک نئی ذندگی کی شروعات کرسکتے ہیں جو تقویٰ اور پرہیزگاری کے زیور سے مزین ہو۔ہمیں چاہیے کہ ہم دین کو رہنما بنا کر رمضان کے ہر لمحے اپنی تربیت کریں اور ہر گھڑی توبہ استغفار میں گزارے ۔تاکہ عرفہ کے روز ہمیں یہ اطمینان میسر ہو کہ ہم بھی عید منانے کے قابل ہو گئے ۔

میری گزارش میرے بھائیوں سے بھی ہے کہ براہ کرم آپ بھی نبی پاکؐ کی سنتوں پر چل کر اپنے گھر کی خواتین کا ساتھ دے جذباتی طور پر بھی اور اگر ضرورت پڑے تو ان کا ہاتھ بھی بٹایاکریں ،اسے آپ کے رتبے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا بلکہ آپ کے کے گھر کا ماحول او ر حصین اور پرسکون ہوجائے گا ۔کوشش کریں کہ وقتاً فوقتاً گھر کی خواتین کی حوصلہ افزائی کریں، یقین مانیے آپ کی زندگی اور آپ کے گھر کا ماحول بے حد حسین بنائیں گے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ ؐ خود اپنی زوجہ مطہرات کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے ۔سبحان اللہ

اس کے بر عکس ہمارے گھروں کا حال دیکھیے کہ افطاری کے وقت بھی اگر دسترخوان پر سجی بے شمار ضیافتوں میں اگر ایک بھی ضیافت ہمارے افراد خانہ کے معیار پر نہ اُترے اور ذرا سا نمک مرچ کم یا زیادہ ہو تو تنقید کے تند تیر برسا برسا کر ،سوچیئے، ہم اپنی خواتین کا کیا حشر کرتے ہیں ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا بھی تو روزہ ہوتا ہے ۔اور خواتین کو بھی چاہیے کہ بے جا فرمائشیں کر کر کے گھر کے مردوں کا سکون برباد نہ کریں بلکہ انہیں سمجھے تاکہ وہ بھی آپ کو سمجھنے کی کوشش کریں اور خدا را معمولی باتوں پر ہنگامہ برپا کرکے اپنے گھر کا ماحول خراب نہ کریں ، اپنے قوت برداشت کو بڑھائیں کیونکہ صبر اور برداشت کرنا بھی ایک عظیم نعمت اور عبادت ہے۔نظام الدین اولیاء ؒ کاقول ہے’’کَشزہ کُشزہ بود، یعنی برداشت کرنے والا تو مار ڈالتا ہے ‘‘ گویا جس نے برداشت کرنا سیکھ لیا وہی فاتح ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کو ویسے بھی ہمارے بھوکے پیاسے رہنے سے غرض نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ روزوں کے ذریعے ہم اپنے رہن سہن میں ایک ڈسپلن لاء اور ہم میں ناداروں اور مسکینوں کے طے یہ احساس پیدا ہو کہ وہ کن مشکلات اور تکالیف سے گزرتے ہیں تاکہ نہ صرف ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت اور آسائش کر شکر ادا کریں، بلکہ ان کے درد میں شریک ہوکر ان کا سہارا بننے کی کوشش کریں ۔
اللہ کرے یہ رمضان ہم سب کے لئے ہدایت کا سبب بنے اور اس پاک مہینے میں جو رونق ہماری مسجدوں اور گھروں میں لوٹ آئے گی وہ تا عمر قایم ودایم رہے ،ایسا نہ ہو کہ رمضان ختم ہوتے ہی ہماری مساجد پھر سے نمازیوں کو ترسیں اور ہماری خواتین کے کندھوں سے جو ڈپٹے اس مہینے کچھ سروں پر آجاتے ہیں وہ کہیں رمضان المبارک ختم ہوتے ہی پھر سے نہ سرک جائیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کے حقیقی فلسفے کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین