دورِ جدید کا آدمی۔ توہم اور تصنع کا مرکب نوائے سروش

معراج زرگر

ایک دفعہ ایک نوجوان لڑکی نے فیض احمد فیض سے کہا : فیض صاحب! مجھ میں بڑا تکبر ہے اور میں اَنّا کی بہت ماری ہوئی ہوں۔جب صبح میں شیشہ میں دیکھتی ہوں تو میں سمجھتی ہوں کہ مجھ سے زیادہ خوبصورت اس دنیا میں اور کوئی نہیں‘‘۔فیض صاحب کہنے لگے ’’ بی بی ! یہ تکبر اور اَنا ہر گز نہیں، یہ غلط فہمی ہے۔‘‘
ہم ایسے لوگ بھی تقریباََ ایک ایسے ہی وہم اور غلط فہمی میں مبتلاء ہیں کہ ہم کوئی بڑے تیس مار خان کی اولاد میں سے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہم ایسے لوگوں نے ایک خیالی اور ایک ماسکڈ پہچان بنائی ہوئی ہے، جس کے عقب میں نہ ہمارا وجود نظر آتا ہے اور نہ ہمارا شعور۔ ہم ایک نقلی اور مصنوعی وجود لےکر مزدوری کرتے ہیں،افسری کرتے ہیں،گھر چلاتے ہیں، دکان چلاتے ہیں یا زندگی کے کسی بھی مشغلے میں مگن ہیں، اور ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ اس نقلی اور مصنوعی ڈھانچے کی قیمت ایک بوری سے زیادہ نہیں، جس میں بھوسا بھرا ہوا ہے۔ ہم روز آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر آئینے میں نظر آنے والے شخص سے جھوٹ بولتے ہیں کہ واہ کیا کہنے۔۔۔!بڑے اسمارٹ اور زبردست لگ رہے ہو۔ سر پہ ٹوپی عمامہ اور صاف و شفاف پیرہن زیب تن کئےیا سوٹ بوٹ ٹائی سجائے ہوئے،اگلے انسان سے جب مولوی صاحب ،حاجی صاحب یا جناب صاحب سن کر ہم پھولے نہیں سماتے تو خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں اور ایک وہم کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم ایک مخمصے اور التباس کا شکار ہیں۔ ہم کہیں اپنی پہچان اور اپنے موجود ہونے کے اسٹیٹس کو کھو چکے ہیں اور پیٹ اور اپنی جھوٹی اَنّا کی تسکین کے لئے جانوروں کی طرح زندگی گذار رہے ہیں۔
پروفیسر احمد جاوید صاحب ایک اپنی نشت میں کیا خوب بیان کرتے ہیں،’’ خودبینی کی جڑواں بہن ہے ‘خودنمائی،خودبینی’’ خود پر خود کو اِمپوز کئے رکھنا’’ اور’’ خودنمائی‘‘ خود کو دوسروں پر اِمپوز کرنا‘‘ ہے۔ دنیا میں ایک آدمی ہمارے پاس ہمیشہ موجود ہے وہ ہمیں خدا ماننے کو بھی تیار ہے، نبی ماننے کو بھی تیار ہے ،عظیم فاتح ماننے کو بھی تیار ہے، خلاصہ ٔوجود ماننے کو بھی تیار ہے۔ ہر آدمی کے پاس ایک ایسا آدمی ضرور ہے اور وہ آدمی وہ خود ہے۔ اس مسخرے نے اپنی اس طرح کی فرضی شکل خود کو باور کروا رکھی ہے۔ یہ اس کا میک اپ کر کے دوسروں سے اصرار کرتا ہے تو بھی میری اپنی بنائی ہوئی امیج پر ایمان لے آ۔ یہ اپنی جھوٹی خود ساختہ امیج کو دوسروں کےلئے حجت بناتا ہے کہ میں خود کو آئنسٹائین سے بڑا سائنسدان سمجھتا ہوں، لہٰذا دیکھتے نہیں ہو، میں نے سفید کوٹ بھی پہن رکھا ہے اور اس کی طرح بال بھی اوپر کر رکھے ہیں اور مجھے حساب بھی آتا ہے، لہٰذا تم پہ لازم ہے کہ تم بھی اسی یقین کے ساتھ اس حقیقت کو مانو کہ میں آئنسٹائین ہوں ،جس یقین کے ساتھ میں خود مانتا ہوں‘‘۔
ہم بالکل اسی طرح اپنی ہی گڑھی ہوئی اور خود تراشیدہ صورتوں کو خود پر حاوی کئے ہوئے ہیں اور اس سے بڑھ کر دوسروں سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ بھی ہماری ایک ایسی تراشیدہ صورت کو قبول کریں جو کہ اصل میں ہماری نہیں۔ ہم اپنا پیشہ دوسروں پر تھوپتے ہیں۔ اپنا مذہب و مسلک دوسروں کے لئے حجت بناتے ہیں۔ اپنی دلیل سے دوسروں کو قائل کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ہم خود اس دلیل کے نہ ہی کوئی موجد ہیں اور نہ ہی اس کے پیروکار۔ بس ایک زبردستی اور دکھاوے کا راگ الاپ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے اس راگ پر ناچنا شروع کریں اور اگر کوئی انکاری ہوجائے تو اسے الگ الگ القابات سے نوازیں اور اگر بس چلے تو اس کا جینا حرام کردیں۔
جب ہم منجملہ اپنی زندگیوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو خود کو ایک عجیب صورتحال سے لڑتا ہوا پاتے ہیں اور یہ صورتحال اسی نقلی اور خود پر امپوز کئے ہوئے مصنوعی خول سے برآمد ہوتی ہے۔ اس سارے مسخرے پن اور ظاہر میں موجود بے کار گذاری ہوئی زندگی سے جب کبھی پانچ دس منٹ کا وقفہ میسر آتا ہے تو خود سے گھن آنے لگتی ہے۔ لمبی گذاری ہوئی زندگی کا ایک خاص حصہ گذارنے کا مگر ایک اچھا خاصا تجربہ خود کو اور ہزاروں انسانوں کو سمجھنے کے لئے ایک خاص حیثیت رکھتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر زندگی خود نمائی اور غلط فہمی میں گذاری تو اس سے بڑی بد نصیبی کوئی نہیں۔ سب سے بڑا وہم اور بد نصیبی یہ ہے کہ اگر ہم دنیا سے یا کسی دنیادار آدمی سے مرعوب ہوگئے اور کسی غریب اور دنیاوی لحاظ سے کسی چھوٹے انسان پر اپنی حکومت چلائی۔ یہ ایک بہت بڑا جرم اور ایک بہت بڑی اخلاقی گراوٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کی نفی ہے۔
انسانوں کے ساتھ میل جول کے دوران جب یہ غلیظ جملہ ’’تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں‘‘ سننے کو ملتا ہے تو زمین اپنے محور سے ہلتی ہوئی نظر آتی ہے اور جب کسی صاحبِ حیثیت یا عہدے دار کو اللہ کی مخلوق سے صاف بھید بھاؤ ہزاروں دفعہ دیکھتے ہوئے اور محسوس کرتے ہوئے ہم سب کی زندگیاں گذر رہی ہوں تو اللہ کے نظام کار میں خلل کی کتنی بڑی سزا کے مستحق ہونگے۔ ایک دنیادار اور سفارشی کا کام ایک فون پر ہواور ایک غریب اور انجان پریشان انسان کا وہی کام ہفتوں مہینوں نہ ہو تو ہمارا وجود اور ہمارا ضمیر انسانی نہیں ہے، بلکہ ایک مصنوئی لباس اوڑھے ہوئے کسی دوسری مخلوق کا جسم ہے،جس سے اگر بدبو اور سڑانڈ نہیں آتی تو تعجب ہے۔ جب حقیر مادے سے وجود میں آنے والے ڈھانچے ایک نیچرل اسکیم یا آرڈر سے متصادم ہوں تو پھر ہمارا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ گائے بھینس ،گھوڑے اونٹ ،کتے اور بلّی بھی اپنے تخلیقی آرڈر اور ڈسپلن سے دستبردار نہیں ہوتے،مگر نئے زمانے کاایک پڑھا لکھا انسان نسل،مسلک، رنگ ،امیری اور غریبی کی بنیادوں پر تفریق کرتا ہے اور تفریق کے بعد بھی اس بات سے بے خبر بنتا ہے اور عجیب تاویل دیکر خود کو غلط فہمیوں کے حوالے کرتا ہے۔
ہمارا مذہبی سرپرست غریب کا نکاح پڑھانے میں جھجھک محسوس کرتا ہے اور امیر کے گھر بڑا بن سنور کر آتا ہے۔ جب کبھی کسی دینی مجلس یا اجتماع کے لئے دور جانا ہو تو اس علاقے کے بڑے آدمی کے ہاں ٹھہرتا ہے اور خورد و نوش بڑے گھر میں فرماتا ہے۔ ہمارا پروفیسر،ڈاکٹر،کلرک ،استاد،وکیل سب کہیں نہ کہیں مادے اور مادے کے ٹھیکیداروں سے مرعوب ہوتا ہے۔ ہم سب ایک نئی اصطلاح ’’برانڈ کانشسنیس‘‘ کے شکار ہوچکے ہیں۔ اور ہم نے بالکل ایک لکیر کھینچی ہوئی ہیں،جس کے ایک طرف سماج کا اونچا طبقہ اپنی نقلی اور بناوٹی پہچان کے ساتھ کھڑا ہے اور دوسری طرف ایک پچھڑا طبقہ اپنی پہچان بگاڑ کر بیٹھا ہے تاکہ وہ بھی اس گھناونی لکیر کو پار کرسکے۔ ہمارے وجود برانڈس کے رسیا ہوچکے ہیں اور ہماری روح کہیں گہری کھائی میں مری پڑی ہے۔ نظامِ عالم فنا کی دہلیز پہ کھڑا ہے۔
موجودہ ورلڈ آرڈر اور خطرناک حد تک نا پید ہوچکی انسانی شکل و شبیہہ کو محسوس کرتے ہوئے ایسا نہیں لگ رہا کہ انسانی وجود کبھی اپنےنقلی خول سے دستربردار بھی ہوگااور اپنے مصنوعی اور فرضی شناختوں کو خیرباد کہہ کر اپنی اصل شناخت اور انسانی لباس میں واپس آئے گا۔ ہم لوگ پوری طرح نقلی ہیں اور انسان کی نقلی شناخت، یا جعل سازی، ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا سامنا دنیا بھر میں افراد اور ادارے کر رہے ہیں۔ روبوٹکس ،مصنوعی ذہانت ،سوشل میڈیا پر نقلی شناخت اور کیپٹل ازم کے ہوتے اشتہار بازی انسانوں کو ایک مصنوعی اور بناوٹی ڈسکورس کی طرف اپنے پورے بہاؤ کے ساتھ دھکیل رہے ہیں۔ معاشرے کا ہر فرد اداکاری کر رہا ہے، اور وہ دِکھنے کی کوشش کر رہا ہے جو وہ نہیں ہے۔ ہمارے گھر، ہمارے دفاتر، اسکول، کالج، ادارے، ہمارے سارے معاشرتی ڈھانچے اداکاری کے انسٹی چیوشنز ہیں۔ جہاں ہر کردار اپنا اپنا نقلی رول نبھا رہا ہے اور اوریجینیلیٹی کا کہیں نام و نشان ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ہر بدلتے لمحے بے بس ہورہا ہے اور اپنے وجود کی نفی کر رہا ہے۔
رابطہ۔9906830807