دریائے جہلم اور دیگر نالوں پر تقریباًڈیڑھ دہائی سے نامکمل پل عذاب کی علامت عام لوگ کشتیوں پر سفر کر کے خود کو خطرے میں ڈالنے پر مجبور،14مہینوں میں 75کی جانیں تلف

oplus_2

 اعجاز میر

سرینگر //گنڈ بل میں دریائے جہلم پر کشتی الٹنے کے واقعے کے بعد ان رہائشیوں کو اپنی جانوں کا خطرہ لاحق ہے جنہیں دریائے جہلم کو عبور کرنے کیلئے ہر روز کشتیوں پر انحصار کرنا پڑرہا ہے۔دریائے جہلم پر متعدد پلوں کی تعمیر ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل شروع کی گئی لیکن عوامی رسل و رسائل کے لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل کئی پل برسوں سے نامکمل ہیں۔ ان پلوں کی سروے مکمل ہونے کے باوجود یا تو فنڈز جاری نہیںکئے گئے یا کسی نہ کسی وجہ سے لیپس ہو گئے۔ ایسے کئی پل ہیں جن پر تخمینہ کی آدھی رقم خرچ ہو چکی ہے اور آدھا کام روک دیا گیا ہے۔ ان پلوں کا کام یا تو محکمہ آر اینڈ بی کے ذمہ تھا یا پھر انہیں دیگر تعمیراتی ایجنسیوں کے حوالے کر دیا گیاتھا۔ لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر جن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جموں و کشمیر کے اندر ایک اہم تشویش پلوں جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں سے منسلک نظر انداز کرنے کا المیہ ہے۔اس پر یقین کرنا مشکل لگتا ہے، لیکن جموں و کشمیر انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ فنڈ کارپوریشن (JKIDFC) نے 1446.73 کروڑ روپے کے 622 نامکمل پروجیکٹوں کے لیے فنڈنگ کی منظوری دی ہے۔ یہ پروجیکٹ جموں و کشمیر کے تمام 20 اضلاع میں پھیلی ہوئے ہیں۔ کم از کم 15 پل اور 7 پیدل چلنے والے پل برسوں سے ادھورے پڑے ہیں اور ان کی بڑی مرمت کی ضرورت ہے۔دریائے جہلم پر تقریبا ًایک دہائی سے نامکمل پل کو آنے والے عذاب کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس سے دیہاتی خطرناک کشتیوں کے سفر پر اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہیں۔لوگوں کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود کو ترجیح دینے میں حکومت کی ناکامی نے کشمیر کے لوگوں کی زندگیوں میں گہرے سوراخ کر دیئے ہیں۔
گنڈ بل
گنڈبل بٹوارہ سرینگر میں حکام پچھلے 8 برسوں سے چند میٹر کے چھوٹے پل پر کام مکمل کرنے میں ناکام ہے ۔مقامی رہائشیوں کا کہنا تھا کہ 16 اپریل کو علاقے میں کشتی الٹنے کا سانحہ پیش آیا جس کی بنیادی وجہ پل کی عدم دستیابی تھی یہ پل اس جگہ تک پہنچنے کا واحد راستہ تھا، جہاں تقریباً 400 خاندان رہتے ہیں۔فٹ برج پر کام 4.76 کروڑ روپے کی لاگت سے شروع ہوا۔مقامی لوگ پل کی تعمیر میں ناکامی کا الزام آنے والی حکومتوں پر لگا رہے ہیں،پچھلے چھ برسوں سے پل کا کام کچھ سیمنٹ کے ستونوں کی تعمیر سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے جو پل کے آدھے حصے پر لوہے کے گرڈر کو سہارا دیتے ہیں۔ پل کی تعمیر سے شہر کے کرسو ، شیوپورہ ،پادشاہی باغ ، سوئیہ ٹینگ سمیت درجنو ں علاقے ایک دوسرے سے منسلک ہو سکتے ہیں ۔محکمہ کے ایک اعلیٰ عہدیداران کا کہنا ہے کہ سال2016میں اس کی تعمیر کا کام شروع ہوااور فنڈز کی کمی کی وجہ سے طویل عرصے تک اس کا کام معطل رہا ،کیونکہ اس منصوبے کی نہ تو “انتظامی منظوری تھی، اور نہ ہی تکنیکی منظوری۔”انہوں نے کہا پل کی چوڑائی میں بھی اضافہ کیا گیا تھا جس کی لاگت اب بڑھ کر 4.76 کروڑ روپے ہو گئی ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ انتظامی اور تکنیکی منظوری ملی ہے اور یہ پل جون کے آخر میں مکمل کر دیا جائے گا ۔
نور باغ قمرواری
نورباغ-قمرواری 127 میٹر لمبے پل کی تکمیل میں بھی غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے ،اس منصوبے کے آغاز سے لے کر اب تک کئی چیف انجینئرز اور متعلقہ ایس ای اس پراجیکٹ پر کام کر چکے ہیں لیکن اب تک کوئی بھی پل کو مکمل کرکے عوام کے لیے کھولنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔پل جو ٹریفک میں تعطل کو روکنے اور شمالی کشمیر کو سرینگر کے ساتھ بہتر رابطہ فراہم کرنے کیلئے شروع کیا گیا تھا، مسلسل تاخیر کا شکار ہے اور پرانے پل پر گاڑیوں کی آمد ورفت میں خلل پڑ جاتا ہے ۔محکمہ آر اینڈ بی کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ اس پروجیکٹ کو شروع ہوئے ایک دہائی ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان برسوں کے دوران متعدد رکاوٹوں کی وجہ سے اس منصوبے میں تاخیر ہوئی اور زیادہ تر مسائل حل ہو گئے۔انہوں نے کہ دکانوں سمیت دیگر ڈھانچے کو ہٹانے کا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اراضی کے حصول اور دیگر مسائل کی وجہ سے منصوبے میں تاخیر ہوئی۔محکمہ آر اینڈ بی کے مطابق پل کی تعمیر پر 9.85 کروڑ روپے لاگت آئی تھی، خیال رہے کہ پل کی تعمیر کا آغاز 2011 میں ہوا تھا، ابتدائی طور پر پل کو سال 2014 میں مکمل ہونا تھا، بعد ازاں اس کی ڈیڈ لائن مارچ 2017 اور پھر دسمبر 2018 تک بڑھا دی گئی۔اس کے بعد یہ کہا گیا کہ اس کوسال2022میں مکمل کیا جائے گا لیکن اب اس کی ڈیڈ لائن جون 2024مقرر کی گی ہے ۔
پلوامہ
ڈوگری پورہ ،ریشی پورہ پلوں کی تعمیر 17 برسوںسے تشنہ تکمیل ہے ،پلوامہ ضلع میں دریائے جہلم پر ڈوگری پورہ اور ریشی پور ہ میں 2 پلوں پر کام بالترتیب 2007 اور 2008 میں شروع ہوا تھاجو ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔زرائع کے مطابق ڈوگری پورہ پل کی تعمیر کا کام جے کے پی سی سی کو سونپا گیا تھا ،تاہم فنڈس کی کمی کے نتیجے میں وقت وقت پر اس کا کام تاخیر کا شکار ہوتا رہا ۔پل کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیر برائے تعمیرات عامہ (پی ڈبلیو ڈی) محمد خلیل بندھ نے رکھا تھا، جوسست رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر پل مکمل ہو تا تو پلوامہ کے کئی دیہات بشمول ڈوگری پورہ، ریشی پورہ، پنزگام، شال ٹیکن اور نیینہ کو فائدہ پہنچتا۔لوگوں کو شاہراہ تک پہنچنے کیلئے اونتی پورہ کا سفر کرنا پڑتا ہے ،یا کشتیوں میں دریا کو پار کرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو منصوبہ مارچ 2019 میں مکمل کرنے کی ڈیڈ لاین مقرر کی گئی تھی، تاہم اب اس سال کے آخر تک اس کو مکمل کرنے کے دعویٰ کئے جا رہے ہیں ۔محکمہ تعمیرات عامہ کے ایگزیکٹو انجینئر اونتی پورہ زون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ڈوگری پورہ پل کی تعمیر کا تخمینہ 13کروڑ 85لاکھ ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل یہ کام جے کے پی سی سی کے پاس تھا اور دو ماہ سے یہ کام محکمہ تعمیرات عامہ کو سونپا گیا ہے اور رواں برس اس پل کی تعمیر بھی مکمل کی جائے گی ۔پلوامہ میں ہی ریشی پورہ پل کی تعمیر بھی تاخیر کا شکار ہے ۔اس پل کی تعمیر پر 10.94کروڑ روپے مختص رکھے گئے تھے، لیکن یہ پل بھی تعمیر کا منتظر ہے ، پل کی عدم دستیابی کے نتیجے میں مکنوں کو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طہ کرنا پڑتا ہے ۔
سمبل بانڈی پورہ
سنبل بانڈی پورہ میں دریائے جہلم پر فٹ برج کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھے ہوئے 11 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اس کی تعمیر ایک ستون کے کھڑا کرنے کے بعد بند کر دی گئی ہے ۔ 26 فروری 2014 کو اس وقت کے وزیر برائے آر اینڈ بی عبدالمجید وانی اور اس وقت کے وزیر برائے ہائر ایجوکیشن محمد اکبر لون (ممبر پارلیمنٹ) نے دریائے جہلم پر فٹ برج کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا تھااور اس کی کل لاگت 416لاکھ روپے تھی ،لیکن 11برسوں میں صرف 25فیصد کام ہوا ۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ سال2016کے بعد اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی ۔ اور یہاں کے لوگ بھی کشتیوں کے ذریعے دریائے جہلم کے دوسرے کنارے تک پہنچتے ہیں جو کہ نقل و حمل کا واحد ذریعہ ہے۔یہ پل سنبل ٹاون کو مانسبل صفہ پورہ ، ننی نارہ ، اشم اور دیگر علاقوں سے جوڑسکتا ہے، کیونکہ ان علاقوں کے لوگوں کو سنبل میں اسکولوں، ڈگری کالجوں اور دیگردفاتر میں آنا پڑتا ہے ۔
پانپور سمپورہ
اسی طرح پامپور کے قریب سمپورہ میں جہلم پر بھی ایک اہم پل تکمیل کا منتظر ہے۔سال2017میں 13.30 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت سے 140 میٹر لمبا پل اس غرض سے تعمیر کرنا تھا تاکہ پلوامہ کے درجنوں دیہات کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے اور سال2018تک ہی اس پر تھوڑا بہت کا م ہوا باقی کام ادھورا چھوڑ دیا گیا ۔محکمہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ پہلے یہ صرف فٹ برج تھا اور بعد میں مقامی لوگوں نے حکومت پر زور دیا کہ اسے موٹر ایبل بنایا جائے جس کے بعد منصوبے کی لاگت بڑھنے پر ایک تازہ تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ پیش کی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ فنڈز کی کمی کے باعث کام روک دیا گیا ہے اور فی الحال کوئی فنڈز دستیاب نہیں ہیں اور فنڈز دستیاب ہونے کے بعد ہی کام شروع کیا جا سکتا ہے۔