! خود نمائی ،خود گزینی اور سوشل میڈیا کے اسیر سماجی رابطے کے برقی صفحات کا استعمال وسیع پیمانے کا نشہ بن چکا ہے

ندیم خان، بارہمولہ

اللہ تعالیٰ نے جب سے یہ کائنات بنائی ہے ،تب سے انسان کے سیکھنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ انسان اپنے گھر اور ماحول سے سیکھتا ہے لیکن دَور حاضر میں سیکھنے کا یہ عمل کافی آسان ہو گیا ہے۔ موبائل فونز اور انٹر نیٹ صارفین کا دو تہائی سے زائد حصہ سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے۔ اس سہولت کی بدولت ہر شخص کو اپنے خیالات و جذبات کے اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ہمیں دورِ حاضر میں اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا اس قدر طاقتور میڈیم ہے کہ جہاں دنیا کے کسی کونے میں موجود شخص سے آپ کی ملاقات کروا سکتا ہے وہیں آپ کو آپ کے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اِن سے دور کر سکتا ہے۔ ہماری اور آپ کی ہتھیلیوں پر اور انگوٹھے کے نیچے معلومات کا ایک طوفان برپا ہے۔ اکثر اوقات یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ کہاں کلک کرنا ہے اور کہاں نہیں کرنا۔ کیوں کہ آپ کا ایک ٹچ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے، جہاں آپ چند لمحے گزار کر، جب واپس اپنی دنیا میں آتے ہیں تو یہ بھید کھلتا ہے کہ یہاں تو کئی گھنٹے بیت چکے ہیں۔ فی زمانہ سوشل میڈیا ایک ایسی لت بن چکا ہے، جس میں بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب گرفتار ہوچکے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک لت کی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل، جس کو کرنے سے آپ کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ یہ بات جاننے کے باوجود اس عادت کو ترک کرنے سے قاصر ہوں۔ دنیا کے مایہ ناز ماہرین میں سے ایک ڈاکٹر گیبر میٹ کی ریسرچ کے مطابق ہر لت کسی نہ کسی ذہنی دھچکے سے متعلق ہوتی ہے۔ زندگی میں ملنے والی کوئی بھی ناکامی انسان کو کسی نہ کسی لت میں مبتلا کرتی جاتی ہے۔ جب کسی کو کوئی جذباتی دھچکا پہنچتا ہے تو وہ اپنے جیسے کسی دوسرے انسان کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ معاشرتی حیوان ہونے کے ناطے انسان کی جبلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں سے رابطہ قائم کرے۔ سماجی رابطے کے برقی صفحات سے مسلسل رابطہ جوڑے رکھنے اور ان برقی صفحات کے بغیر رہ نہ پانے کو ہی لت کا نام دیا جاتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماجی رابطے کے برقی صفحات کا استعمال کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے اِن برقی صفحات کا استعمال ایک نشہ بن چکا ہے۔ اس برقی دور میں جہاں ہر چیز برق رفتاری سے اسکرین کا حصہ بنتی جا رہی ہے، وہیں جذبات، احساسات اور خیالات بھی برقی صفحات کا حصہ بن چکے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایموجیز کی مدد سے اپنے احساسات کا اظہار کرنے والی نسل کی زبانوں سے اصل الفاظ کی چاشنی گم ہو چکی ہے۔ کوئی مر رہا ہے تو ویڈیو، کوئی مار رہا ہے تو ویڈیو، آپ نے کیا کھایا، کیا خریدا، کیا پہنا، کہاں گھومنے گئے، کس سے ملے، کس کے ساتھ وقت گزارا۔ ہر لمحہ سیلفی کی فکر میں جیتے لوگ اتنی زندگی جی نہیں رہے، جتنی زندگی کیمرے میں قید کر رہے ہیں۔ کتنے لائیکس، کتنے کمنٹس، کتنے شئیرز کی گنتی میں اُلجھ کر اپنی اصل قیمت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ خود پسندی اور ریاکاری کا شکار انسان پانچ ہزار دوستوں کی لسٹ میں بھی تنہائی کا شکار رہتا ہے۔ ایک حالیہ مطالعے کے مطابق بار بار اپنی سیلفی لینا ایک ذہنی خلل ہے، جسے سیلفیٹس (selfitis) کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اگر ایک دن میں چھ سے زیادہ مرتبہ اپنی سیلفی لیتا ہے اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ذہنی خلل بہت زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر 10 میں سے تین تصاویر سیلفی ہوتی ہیں۔ انسٹاگرام پر ہر دس سیکنڈ میں ایک ہزار سیلفیاں پوسٹ کی جاتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ دنیا بھر میں 93 ملین سیلفیاں لی جاتی ہیں۔

ایک دور تھا کہ علما کی جانب سے ویڈیو اور تصویر کشی کو حرام کہا جاتا تھا اور اس کی شدید مخالفت کی جاتی تھی۔ مذہبی رہنماؤں میں سے چند ایک اب بھی اس کے مخالف ہیں لیکن ان کی تعداد شاید اب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اکثر علما و مشائخ نے معاشرے کی ضروریات کے باعث اسے جائز قرار دے دیا ہے۔ ویڈیو اور تصویر کشی اب خود اسلام کی تبلیغ کا ایک اہم راستہ بن چکا ہے لیکن اس کی آڑ میں ہم نے وہ کچھ کردیا ہے، جس کے اخروی انجام کا شاید ہمیں اندازہ بھی نہ ہو۔ ابتداء تو یوں ہوئی کہ ہم احساس کمتری کا شکار ہوئے اور اپنی زندگی کے روشن پہلوؤں کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے لگے تاکہ دنیا ہمیں اشرافیہ میں شمار کرے۔ اہل کیمرہ کہیں کھانا کھانے جاتے تو سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتے، کسی بڑی شخصیت سے ملتے جو ان کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا، لیکن احساس کمتری کے شکار افراد اسی حالت میں ان کے ساتھ تصویر بنوانا اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنا قابل فخر سمجھنے لگے۔ ان تمام کاموں سے معاشرتی برائیاں جنم لے ہی رہی تھیں کہ ہم میں سے بہت سوں نے اپنی عبادات کی بھی تشہیر کرنا شروع کردی۔ تہجد جیسی عبادت جسے رات کے پہر کرنے کا حکم ہی اس لیے تھا کہ یہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان راز ہے۔ اہل موبائل اور سوشل میڈیا کے دیوانوں نے اسے بھی مشتہر کرنا شروع کردیا جس سے ظاہر ہے نمود ہی جھلکتی ہے جو کہ خود ایک گناہ ہے۔ برائی کی ابتدا یہاں سے ہوئی تو یہ معاملہ تھم نہ سکا، لوگوں نے سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنانا شروع کردیں۔ معاملہ اور آگے بڑھا تو سوشل میڈیا کی دنیا کے اسیروں نے میتوں کے ساتھ سیلفیاں، کوئی ڈوب رہا ہے تو پہلے سیلفیاں، بیماروں کے ساتھ سیلفیاں اور جنازوں کی سیلفیاں بھی بنانے کی ابتدا کی۔ بُرائی کا جن ایک بار بے قابو ہوجائے تو اسے بڑے سے بڑا عامل بھی آسانی سے قابو نہیں کرسکتا۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا، جب اس کام کی بھی تشہیر ہونے لگی، جس کے متعلق حکم تھا کہ اگر ایک ہاتھ سے کرو تو دوسرے ہاتھ کو بھی اس کا علم نہ ہو۔ لوگ کسی کے ساتھ ذرا سی بھلائی بھی کرتے، کسی کو راشن دیتے، کسی کو پیسے دیتے، زکوٰۃ دیتے تو سوشل میڈیا پر اس کی تصویر بھی ڈالتے۔ دنیا نے پھر وہ وقت بھی دیکھا، جب اپنے حالات سے مجبور غریب افراد اس جرم کا شکار ہوئے، اپنی مجبوری کے باعث کسی سے کچھ لیتے تو ساتھ سر جھکا کر شرمندگی کے عالم میں اپنی تصویر بھی بنواتے اور یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ اب نجانے کون کون اسے دیکھے گا اور کیسے کیسے سوال کرے گا۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا، اپنی اور بچوں کے پیٹ کی آگ کو عزت نفس پر قربان کرنے کے سوا کوئی راستہ جو نہ تھا۔ کچھ لوگوں نے اس امر کی مخالفت کی، مذہبی طبقے نے بھی اسے غلط قرار دیا لیکن یہ معاملہ اب رکنے کے بجائے آگے ہی بڑھتا چلا جارہا ہے۔ حد یہ ہوگئی ہے کہ لوگ اب کسی کے ہاں تعزیت کرنے جائیں تو کیمرہ مین ساتھ لے کر جاتے ہیں، فاتحہ کے دوران اور تعزیت کرتے ہوئے مختلف زاویوں سے تصاویر کھینچی جاتی ہیں اور کبھی تو کیمرہ مین نہ ہوتا تو متاثرہ خاندان میں سے ہی کسی کو کہہ دیتے ہیں کہ ذرا دعا کرتے ہوئے تصاویر بنانا۔ ایک لمحے کو سوچئے کسی کا بیٹا مرگیا ہو، کسی کا باپ دنیا سے چلا گیا ہے یا کسی کی ماں اب اس کے پاس نہ رہی ہو اور ہم یا آپ اس سے تعزیت کے ساتھ تصاویرکےلیے پوزنگ بھی کرائیں تو اس پر کیا گزرے گی؟ پھر سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر نہ جانے کب تک اس کے سامنے آکر اس کے زخموں کو ہرا کرتی رہے گی۔ اس صورتحال میں کیا ہماری تعزیت اللہ کے ہاں قبول ہوگی؟ کیا اسے نیکی شمار کیا جائے گا؟ یا پھر یہ ہمارا جرم قرار دیا جائے گا۔ اگر اس وقت متاثرہ افراد کے دل سے کوئی آہ نکل گئی تو ہمارا انجام کیا ہوگا؟ ہمارے دین میں تو عبادات قبول نہ ہوں تو ان کے متعلق کہا گیا کہ تمہارے منہ پر مار دی جائیں گی۔ پھر آخر ہمیں یہ ڈر کیوں نہیں کہ کہیں روز قیامت اللہ ہماری یہ نیکیاں ہماری جانب واپس نہ پھینک دے؟ اللہ ہم سب کو وہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے جو وہ ہم سے چاہتا ہے۔
(رابطہ۔ 6005293688)
[email protected]