خودکشی جرم ہی نہیں، صبر کی توہین ہے فکرو ادراک

حافظ میر ابراہیم سلفی

گزشتہ کئی سال سے بالعموم اور کچھ مہینوں سے بالخصوص وادی کشمیر میں نوجوان طبقے کے اندر خودکشی کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔خودکشی دینی ،اخلاقی اور ایک سماجی جرم ہے جس کا مرتکب نہ صرف خود کو سزا کا مستحق بنا دیتا ہے بلکہ خودکشی کرنے والے کے عزیز و اقارب ،والدین ،دوست اور ہمارا معاشرہ بری طرح متاثر ہوجاتے ہیں۔قتل نفس کا مرتکب وقتی پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے ابدی خسارے کا مستحق بن جاتا ہے۔گزشتہ کئی مہینوں سے نابالغ بچوں کے اندر بھی اس جرم عظیم کا رجحان تیز رفتاری سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ایسے واقعات بھی دیکھے گئے جہاں طالب علم نے آٹھویں جماعت میں کم نمبرات لانے کی وجہ سے خود کو ہلاک کردیا۔دسویں اور بارویں جماعت کے طلباء و طالبات میں یہ فکر ایک عام سی بات بن گئی ہے۔بعض اوقات گھریلو فساد کی وجہ سے بچے کی ذہنی حالت خراب ہوجاتی ہے ،ذہنی تناؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ انجام موت کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔اسی طرح معاشی بحران کے شکار بےروزگار نوجوان بھی سماج کے لایعنی اصولوں کی زد میں آکر خود کو موت کے حوالے کردیتے ہیں۔منشیات میں نوجوانوں کا جو طبقہ مبتلا ہے ،ان کو نہ تو خود کی زندگی کی کوئی اہمیت معلوم ہے اور نہ ہی کسی اور کی زندگی کی فکر۔اسی طرح سماجی رسومات و بدعات جنہوں نے غریب انسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ،معاشرے میں پنپتی ہوئی فحاشی و عریانی ،عفت و عصمت پر بدکرداروں کے ڈھاکے ،سوشل میڈیا کے ذریعے ذاتی استحصال (cyber crimes ,blackmailing) ، آن لائن ایپس کے ذریعے کمائی ہوئی دولت کو گنوا دینا (cyber fraud) ، انٹرنیٹ کے جدید آلوں کی زد میں آجانا ،Artificial inteligence کا غلط استعمال وغیرہ بھی خودکشی کے بنیادی وجوہات میں سے ہیں۔عصر حاضر میں معاشرے میں ایسے فتنے بھی پنپ رہے ہیں جن کی خبر نہ تو والدین کو ہے نہ ذی شعور طبقے کو۔ملت کے بچوں سے لیکر بزرگوں تک لوگ ذہنی تناؤ کے شکار ہیں۔بعض اسباب تو لکھے بھی نہیں جاسکتے لیکن قوم واقف ہے کہ ہمارے قدم کس تاریک اور سیاہ راہ کی طرف چل پڑے ہیں۔
وہ وقت چلا گیا جب آپ وعظ و نصیحت کے ذریعے اس جرم پر قابو پاسکتے تھے۔اگرچہ آج بھی قوم کے ذمہ داران کو اپنے آنے والے مستقبل کو خیر و شر سے آگاہ کرنا ہے لیکن یہ حتمی نہیں۔آپ خودکشی کرنے والے پر کتنے ہی فتوے کیوں نہ لگائیں لیکن جب تک آپ بنیادی اسباب کو جاننے اور ان کا تدارک کرنے کی پہل نہیں کریں گے ،یہ سلسلہ نہیں تھمنے والا۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ شریعت اسلامیہ نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ رب کا فرمان ہے ،’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘(البقرة، 2: 195) اسی طرح رب کا فرمان ہے:’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘(النساء، 4: 29) شریعت مطہرہ نے تو خود کو بددعا دینے سے بھی منع فرمایا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’تم نہ اپنے آپ کو بددُعا دو ، نہ اپنی اولاد کو بد دُعا دو اور نہ اپنے اَموال کو بددُعا دو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وہ گھڑی ہو جس میں اللہ پاک سے جس عطا کابھی سوال کیا جائے تو وہ دُعا قبول ہوتی ہو۔‘‘(صحیح مسلم) جو شریعت خود کو بددعا دینے کی اجازت نہ دے وہ کیسے قتل نفس کی اجازت دے سکتی ہے۔وادی کا ہر فرد جانتا ہے کہ خودکشی جرم عظیم اور فعل حرام ہے ،جس پر رب ناراض ہے لیکن آخر پھر اسی وادی میں اس جرم کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے ؟ اس سوال کا کوئی ایک جواب نہیں بلکہ جواب ہزاروں میں ہے اور ہر فرد کی کہانی دوسرے فرد سے جدا ہے۔کوئی انسان مرنا نہیں چاہتا لیکن آخر کیون انسان اپنے ہی ہاتھوں خود کو ظلمات میں پھینک دیتا ہے؟ قوم کو باشعور طبقے کو اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر قوم کے مستقبل کو بچانا ہے۔
قارئین کرام ! سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ملت کی مساجد کا استعمال نوجوانوں کی فکری تعمیر کے لئے کیا جائے۔غزوہ فکری کے اس دور میں ،گمراہ کن افکار کے اس دور میں مساجد میں منبر و محراب باصلاحیت افراد کے حوالے کیا جائے جن میں اتنی اہلیت ہو کہ جدید مسائل پر گفتگو کرسکیں اور نوجوانوں کی رہنمائی کرسکیں۔بدقسمتی سے آج بھی ہماری مساجد آپسی منافرت ،فرقہ واریت اور فقط چند چیزوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ۔اس روش کو جتنا جلدی ہوسکے چھوڑ دینا ہے۔اسی طرح قوم کے طبیب (doctors) جو ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں سے جڑے ہیں ،ان پر لازمی ہے کہ اپنی صلاحیت کو بروئے کار لاکر ایسے افراد کی proper councilling کریں۔جو باتیں مریض اپنے قریبی لوگوں کو نہیں کہتا، وہ آپ کے سامنے اپنے وہ راز بیان کرسکتا ہے۔لہٰذا ایسے افراد کے لئے آپ کو مسیحا بن کر ان کے روحانی مرض کا علاج کرنا ہے۔ والدین پر بھی واجب ہے کہ اپنی اولاد کے چہرے کو پڑھنا سیکھ لیں ۔ہم نے اپنے گھروں میں ایسی سماجی دیواریں کھڑی کردی ہیں کہ اولاد اپنے من میں ہورہی بے چینی کو اپنے والدین کے سامنے ،بھائی بہن کے سامنے بیان نہیں کرپاتا۔جتنا جلدی ہو اتنا جلدی ان دیواروں کو گرایئے۔ورنہ آپکے بچے ایسے افراد کے سامنے اپنے جذبات رکھ دیتے ہیں جو وقتی ہمدردی دکھا کے آپکے بچے کی زندگی کے ساتھ ،عفت و عصمت کے ساتھ ،کردار کے ساتھ استحصال کردیتے ہیں ۔
ذہنی تناؤ (Depression) کوئی ڈراما نہیں بلکہ ایک سنگین مرض ہے۔اس کا علاج کیجئے اپنے بچے کو وقت دے کر ،اسکے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔اپنے بچے پر گہری نظر رکھئے کہ کہیں بچہ ہمدردی پانے کے لئے اپنے شرم و حیا کو تو نہیں بیچ رہا۔قوم کے اساتذہ بھی اس مرض کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔وقت وقت پر اپنی کلاس میں ،اپنے ادارے میں councelling sessions منعقد کروائیں جائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو اپنی صلاحیت کے مطابق معاشرے سے اس ناسور کو مٹانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اپنی اولاد کو ،اپنے دوستوں کو فکری استحصال سے بچائیے۔ضرورت ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کو زندگی کے مقصد سے روشناس کیا جائے۔مقصد تخلیق انسانیت کو بیان کیا جائے۔ایمان و اسلام کا تعارف کروایا جائے۔رب العزت کی معرفت سے آشنا کیا جائے۔جو کام کوئی نہیں کرسکتا وہ دین الہٰی کرسکتا ہے۔اپنے گھروں میں دینی ماحول پیدا کریں اور سماجی بدعات کا قلع قمع کرکے ایک پرسکون فضا قائم کی جائے۔اپنے مصائب ،مشکلات رب العزت کے سامنے کیسے رکھے جاتے ہیں ،اللہ کے سامنے آنسوں بہانے کی کتنی اہمیت و فضیلت ہے ، ان امور میںاپنی اولاد کی تربیت کیجئے۔ناشائستہ فیشن پر لاکھوں خرچ کئے ہیں ۔اب ضرورت ہے کہ خرچ کیا جائے شرعی علوم پر۔قرآن سے ،احادیث سے ،اللہ سے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق مضبوط کیا جائے۔اسی طرح معاشرے میں جو NGOs اس مسئلے پر کام کررہی ہیں،وہ بھی اس مصیبت کی جڑ کو اکھاڑ پھینکنے میں اپنا کلیدی کردار نبھائے۔
(رابطہ : 6005465614 )
[email protected]