حج :دین کا بنیادی رُکن اور اسلامی زندگی کا اظہار فکرانگیز

مفتی محمد نعیم
’’حج‘‘ دین کا بنیادی رکن اور ایک مقدس دینی فریضہ ہے۔فریضۂ حج کی ادائیگی اور بیت اللہ میں حجا ج کرام کی حاضری لازم وملزوم ہے۔حج کا تصور ذہن میں آتے ہی خانۂ خدا کعبۃ اللہ کی عظمت وجلالت اور اس کا تصورذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ بیت اللہ کو اللہ جل شانہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیے جانے والے پہلے گھر کا شرف حاصل ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے، جیسا کہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے، اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔رسول اللہؐ کا ارشاد گرامی ہے:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃدینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔(صحیح بخاری)
انسانی طبیعت یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست و رشتے داراور مال و دولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے، تو اسے اپنے وطن اور بیوی و بچے اور رشتے دار و اقارب کو چھوڑ کر، مال و دولت خرچ کرکے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان کوکعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا، مہبط وحی و رسالت کے دیدار کا شوق بھی دلایا ہے اورسب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا اجر و ثواب متعین فرمایا ہے کہ سفر حج ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا،عرض کیاگیا پھر ؟ آپؐ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عرض کیاگیا،پھر کون سا عمل ؟ آپؐ نےارشاد فرمایا: حج مبرور۔(بخاری شریف،:۹۱۵۱)
حج مبرور سے مراد وہ حج ہے،جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہو۔ وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔ وہ حج جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔وہ حج جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے ۔ وہ حج جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلے میں دلچسپی دکھا ئے ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان(گناہوں)کا کفارہ ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)
ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے (اس دوران) فحش کلامی یا جماع اور گناہ نہیں کیا ، تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھراس طرح) لوٹا، جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔(بخاری شریف، :۱۵۲۱)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: بڑی عمر والے، کمزور شخص اور عورت کا جہاد:حج اور عمرہ ہے۔(السنن الکبریٰ ، مسند احمد، للبیہقی)
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نےعرض کیا: اے اللہ کے رسول ؐ! کیا ہم آپؐ کے ساتھ جہاد اور غزوے میں شریک نہ ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: سب سے بہتر اور اچھا جہادحج مبرور ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے، تو اس کے بعد سے میں حج نہیں چھوڑا ۔(بخاری شریف، حدیث:۱۸۶۱)
حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:حج اور عمرہ پر دوام برتو، کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو ختم کرتے ہیں ، جیسا کہ دھونکنی لوہے سے زنگ کو دور کردیتی ہے۔ (المعجم الاوسط، حدیث:۳۸۱۴)ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا کرو،کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو مٹاتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہے ، سونے اور چاندی سے زنگ ختم کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔(ترمذی شریف، : ۸۱۰)
نبی کریم ؐ نے فرمایا:اللہ کے راستے کا مجاہد اورحج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اللہ نے انہیں بلایا، لہٰذا انہوں نے اس پر لبیک کہا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے، تو اللہ نے ان کو نوازا ہے۔ (ابن ماجہ، :۲۸۹۳)
حج کرنے میں جلدی کیجیے،لہٰذا ہر بندۂ مومن جو صاحبِ استطاعت ہو، زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ ضرور حج کا قصد کرنا چاہیے۔حضرت ابن عباس ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا: حج یعنی فرض حج میں جلدی کرو، کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے۔(مسنداحمد،:۲۸۶۷) حج نہ کرنے پر سخت وعیدہے،جیسا کہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اتنے توشہ اور سواری کا مالک ہو جائے، جو اسے بیت اللہ تک پہنچادے، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے ، تو اس کے لیے کوئی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ، اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا، اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو، اس کی طرف راہ چلنے کی۔(جامع ترمذی)
حج کی ادائیگی اسلامی زندگی کا اظہار ہے۔ لہٰذا انتہائی رضا و رغبت اوردلی جذبۂ محبت و ایثار کے ساتھ والہانہ انداز میں اس عظیم فریضہ کی ادائیگی کے لیے رختِ سفر اختیار کرنا چاہیے۔ اس مقدس سفر کا ہر لمحہ انتہائی قیمتی ہے۔ اسے فضول اور لایعنی مشاغل میں برباد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ نمازوں، طواف، ذکر و اذکار اور دیگر مسلمان بھائیوں کی خدمت و دل جوئی اور نرم گفتاری اختیار کرتے ہوئے رضائے الٰہی کے حصول میں سرگرداں رہنا چاہیے۔ ہم اس عبادت اور سنہری موقع کو اپنی کم علمی یا حماقت کی وجہ سے ضائع کردیتے ہیں۔ نہ جانے کتنے بدنصیب ایسے ہیں جواس رحمتوںکے مرکز سے بھی وعیدکے مستحق ہو کر واپس لوٹتے ہیں ‘صرف اس وجہ سے کہ وہ وہاں جاکر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے ۔ خدارا! فقط حاجی کہلانے کے لیے حج مت کیجیے، بلکہ حاجی بننے کی کوشش کیجیے ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ایسے حج کی توفیق عطا فرمائے جو ہمارے اعمال نامے کی سیاہی کو حسنات کے نور میں تبدیل کردے۔آمین