جمہوریت کے خلاف تیز ہوائوں کا مقابلہ کرنے کی ضروت ندائے حق

اسد مرزا
………………………………………..
’’ہمیں یقینا امریکی اہل کا رکے اس مشاہدے سے اتفاق ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں جمہوری حکمرانی کے خلاف ’’تیز ہوائیں‘‘ مضبوط ہوتی چلی جارہی ہیں اور یہ کہ ہندوستان اور امریکہ میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو قوموں اور مذاہب کے درمیان تقسیم کا بیج بونا چاہتی ہیں۔‘‘
………………………………………….
گزشتہ ہفتے ہندوستان کے اپنے تین روزہ دورے کے دوران USAID ایڈمنسٹریٹر سمانتھا پاور نے دہلی میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کے علاوہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر، وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری پی کے مشرا اور خارجہ سکریٹری ونے کواترا کے ساتھ ملاقات کی۔
سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ ملاقاتوں میں انھوں نے آزادیٔ اظہار، تقریر، شناخت اور اقلیتی گروہوں کے حقوق کے تحفظ کی اہمیت پر بات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ملاقاتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے، USAID کی قائم مقام ترجمان شیجل پلیوارتی نے کہا کہ محترمہ پاور نے انسانی حقوق اور بنیادی حقوقِ آزادی کو آگے بڑھانے کے لیے دنیا بھر میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے امریکہ کے مسلسل عزم پر زور دیا۔
محترمہ پاور نے آئی آئی ٹی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں جمہوری حکمرانی کے خلاف سر گرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور ہندوستان کے اندر ایسی طاقتیں موجود ہیں جو تقسیم کا بیج بونا چاہتی ہیں، جو مختلف قوموں اور مذاہب کے درمیان اختلافاتبڑھانا چاہتی ہیں، جو قوانین کو یکسر بدلنا چاہتی ہیں، اداروں کو ناکام اور نا اہل بنا دینا چاہتی ہیں اور ان کے راستے میں کھڑے ہونے والوں کے خلاف تشدد برپا کردینا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا گزشتہ سال 6 جنوری کو امریکہ میں اس کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا تھا اور یہ کہ امریکہ اور ہندوستان ان ناانصافیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کس طرح اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اور ہم اپنی مشکل سے جیتی گئی تکثیریت کی کتنی شدت سے حفاظت کرتے ہیں، ہم اپنی جمہوریت اور انفرادی حقوق کا کتنا تحفظ کرتے ہیں، اس کا تعین ہمیں خود کرنا ہو گا اور اس کا اثر نہ صرف ہم پر بلکہ ساری دنیا پر بھی رونما ہوگا۔
امریکہ ۔ہند ڈیولپمنٹ ماڈل :
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اور ہندوستان مل کر ان ترقی پذیر ممالک اورمستقبل کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کو ایک نیا ترقیاتی ماڈل پیش کر سکتے ہیں، جس کی جڑیں قرضوں کے جال اور دوسروں پر انحصار میں نہیں بلکہ اقتصادی تجارت اور انضمام میں پیوست ہوں، جو انفرادی اور قومی سلامتی کی حمایت کرے۔
اس ماڈل کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے اسے ایک ایسے ماڈل کے طور پر بیان کیا جس کی پیشین گوئی کسی ملک کے شہریوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ شامل ہونے پر کی گئی ہے۔ جس میں دوسروں کے ساتھ مساوی سلوک ہوتا ہے اور پیشگی تصورات یا دقیانوسی تصورات کو شامل کیے بغیر تعاون کیا جاتا ہے، جو تسلیم کرتا ہے کہ جمہوریت، شمولیت اور تکثیریت پائیدار ترقی کا سب سے یقینی راستہ پیش کرتی ہے، جہاں وقار چند لوگوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہم سب کے لیے ہے، جس کی جڑیں ہم سب کے لیے ہیں۔ تعاون، چھوٹے ذہن کا نہیں بلکہ بڑے دل کا، جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ہم سب ایک خاندان ہیں۔
امریکہ کے لئے خاص طور پر ہند۔بحرالکاہل کے خطے میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے محترمہ پاور نے کہا کہ امریکہ ہندوستان کو نہ صرف ہند-بحرالکاہل میں ایک نمایاں ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے بلکہ پوری دنیا میں ایک رہنما کے طور پر دیکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان اپنی صلاحیتوں، وسائل اور تکنیکی مہارت کے ساتھ بہت سے دیگر ممالک کی ترقی کی رفتار میں بڑے پیمانے پر تعاون کر سکتا ہے۔ نیز، جس چیز نے ہندوستان کو مستقبل کے ترقیاتی رہنما کے طور پر پیش کیا ہے وہ اس کے مالی اثاثے نہیں بلکہ اس کی جمہوری اقدار ہیں۔ یہ ہندوستان کی کثیر النسلی، کثیر الجماعتی جمہوریت رہی ہے جس نے اسے ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی ہے جن کا اسے سامنا کرنا پڑرہا ہے اور امید ظاہر کی کہ وہ ایک مضبوط اور کامیاب طریقے سے غیر جمہوری چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے گا۔یہ دہائیوں سے آزادی اظہار کے لیے اس کی حمایت بھی رہی ہے جس نے سماجی ناانصافیوں کو سامنے آنے اور انھیں ختم کرنے میں مدد دی ہے۔ یہ تنوع اور اختلاف رائے کے لیے اس کی رواداری رہی ہے جس نے اصلاحات کو اپنی گرفت میں لینے اور اداروں کو ترقی کی طرف گامزن کیا ہے۔ ہندوستان کی ترقی کی رفتار اس کی جمہوریت اور جمہوری اداروں کی وجہ سے بہت زیادہ مضبوط ہے۔
ہندوستان ایک علاقائی رہنما کے طور پر :
محترمہ پاور نے سری لنکا کے لیے ہندوستان کی مدد کی بھی تعریف کی اور اس کا چین سے موازنہ کیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ کس طرح ہندوستان نے 2003 میں گھانا، موزمبیق، تنزانیہ، یوگنڈا اور زیمبیا جیسے غریب ممالک کے قرضے معاف کردیئے۔ بھارت نے سخت ضرورت کی گھڑی میں سری لنکا کی حکومت کو 3.5 بلین ڈالر کی لائن آف کریڈٹ کی سہولت فراہم کرا کراس کے نازک دور میںاس کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہ کر ایک ہم سائے کا مثبت کردار ادا کیا۔
چین کے ساتھ ہندوستانی نقطہ نظر کا موازنہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ چین 2000 کی دہائی کے وسط سے سری لنکا کی حکومت کا سب سے بڑا قرض دہندہ رہا ہے، جو دوسرے قرض دہندگان کے مقابلے میں زیادہ شرح سود پر اکثر مبہم قرضوں کے سودوں کی پیشکش کرتا رہا اور بنیادی ڈھانچے کے مختلف منصوبوں کے لیے مالی اعانت فراہم کرتا رہاہے۔ سری لنکا کے لیے اکثر قابل اعتراض عملی استعمال کے ساتھ، جیسے کہ ایک بہت بڑی بندرگاہ جس سے بہت کم آمدنی ہوتی تھی اورجس کا استعمال تجارتی بحری جہاز بہت کم کرتے تھے۔ اتنا ہی بڑا ہوائی اڈہ، جسے دنیا کا سب سے خالی ہوائی اڈہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہاں سے سب سے کم مسافر اپنا سفر شروع کرتے تھے اور ملک کا سب سے اونچا ٹاور جو سیاحوں کی تعداد میں اضافہ کے لیے پیش کیا گیا تھا ، لیکن بدقسمتی سے سری لنکن عوام کو اس تک رسائی حاصل نہیں تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ محترمہ پاور کی حکومت کے اہل کاروں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں سے میٹنگوں کا مقصد امریکہ اور ہندوستان کی طویل تاریخ کو اسٹریٹجک شراکت داروں اور ترقیاتی مسائل بشمول خوراک کی حفاظت، موسمیاتی تبدیلی، اور کولیشن فار ڈیزاسٹر ریزیلینٹ انفراسٹرکچر اور ڈیجیٹل ڈیولپمنٹ جیسے موضوعات کے لیے تقویت بخشنا بھی تھا۔
محترمہ پاور نے یہ جاننے کے لیے ہندوستانی زرعی ماہرین اور نجی شعبے کے رہنماؤں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیںکہ اور یہ جاننا چاہا کہ کس طرح امریکہ اور ہندوستان عالمی غذائی تحفظ کے بحران سے نمٹنے کے لیے موسمیاتی سمارٹ اور پائیدار حل کا اطلاق کر سکتے ہیں، جو روس کے یوکرین پر حملے سے اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔
مجموعی طور پر، محترمہ پاور کے دورے نے ان تمام مسائل کااحاطہ کیا جن میں انسانی اور اقلیتی حقوق جیسے موضوعات بھی شامل تھے، اورجن پر مسلسل امریکی انتظامیہ نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور ان پر نظر رکھی ہے۔ ماضی میں امریکی وزیر خارجہ نے ہندوستانی وزیر خارجہ سے اقلیتی امور سے متعلق ہندوستانی حکومت کے موقف پر تنقید بھی کی تھی لیکن ہندوستان نے اسے، اس کے اندرونی معاملات میں دخل دینے سے تعبیر کیا تھا۔ تاہم، مجموعی طور پر امریکہ کا کہنا ہے کہ کہ ہم ان مسائل سے نظریں نہیں چرا سکتے اور یہ کافی حد تک صحیح بھی ہے۔ اور اس کے علاوہ اہم بات یہ بھی ہے کہ ہم ان موضوعات کو دونوں ممالک کے سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ظاہر کریں اور اگر صحیح طریقے سے ان کی عکاسی کی جائے اور ان پر عمل کیا جائے تو امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تعلقات میں نمایاں تبدیلی آسکتی ہے، جس سے دونوں ممالک ایک دوسرے کی حمایت اور کوششوں کے ذریعے باہمی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com