! جدید فکری یلغار اور ہماری بے بسی | ہم اپنی غلطیوں سے کب سیکھیں گے؟ غورو فکر

حافظ میر ابراہیم سلفی

جدید تعلیمی دور میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کو عروج نصیب ہوا ،مختلف صنعتوں کا تعارف ہوا ،معاش کمانے کے جدید وسائل پیدا ہوئے ،علم کے خزانے ہر ایک کے ہاتھ میں جا پہنچے۔لیکن دوسری طرف اس نت مئی ترقی کے کچھ ایسے بھیانک چہرے سامنے آئے جس سے انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔سب سے بنیادی چیز ہماری ذاتی و صفاتی تعمیر ہے جس سے مکمل روگردانی کی گئی۔اپنی ذات کو صفات محمودہ سے متصف کرنا اسلاف کی اولین ترجیح ہوتی تھی لیکن جدید دور میں اپنے ظاہر و باطن کی تکمیل کی طرف بلکل بھی دھیان نہیں دیا جاتا بلکہ ہمارے نصاب سے یہ وصف نکل گئی ہے۔خود کو نئے لباس سے ملبوس کرنا،عمدہ زیورات سے اپنے قد کو مزین کرنا ،اعلی سامان سے اپنی خوبصورتی میں نکھار پیدا کرنا ذاتی و صفاتی تعمیر نہیں کہلاتی۔بلکہ اپنے سنسکار ،اپنی عادات و اطوار ،اپنا گفتار و کردار ،اپنی خلوت و جلوت نکھارنے اور سنوارنے کو ذاتی تعمیر سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

جدید سائنسی دور میں پورا دھیان حصول معاش پر دیا جانے لگا ،جس سے لازمی طور مادیت کو فروغ ملا۔حصول معاش کے راستے سے حلال و حرام کی تمیز کو مٹایا گیا جس سے لازمی طور آزاد فکری نے جنم لیا۔اگرچہ حصول معاش قابل تحسین کام ہے لیکن حلال و حرام کی قیود کو مد نظر رکھ کے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جدید نسل میں دین و ایمان،گفتار و کردار کی روح پھونکی جائے۔لیکن حال یہ ہے کہ دین کے داعیان ابھی بھی اپنی مقید مسلکی منافرت ،مناظرہ بازی ،تکفیر و تفسیق سے باز نہیں آتے۔یہ ایک المیہ ہے جس پر جتنا کام ہو کم ہے۔

جدید تعلیمی و سائنسی دور ہمارے لئے رحمت تھا کیونکہ علم و ہنر کے قیمتی موتیوں تک ہر ایک کی رسائی ممکن ہوئی۔حصول تعلیم آسان تر ہوگئی۔انسان گھر بیٹھے اپنا روزگار کما سکتا ہے ،روزمرہ کے مختلف جدید کاروباری طور طریقوں سے آگاہی حاصل ہوسکتی ہے۔خواتین ملت بھی Freelancing کے ذریعے گھر کی چاردیواری میں ہی رہ کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خود مختار بن سکتی ہے۔لیکن یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ان مثبت پہلوؤں کو تاک میں رکھ کر منفی اثرات کو قبول کرلیا گیا۔سوشل میڈیا پر اپنے جسم کی تن بیچ کر پیسے کمائے جانے لگے۔اپنی خلوت کے private معاملات کو منظر عام پر لایا گیا۔اپنی شرم و حیا کو بالائے تاک رکھ کر فحاشی کے دلدل میں خود کو ڈبویا گیا ،smart work کے نام پر shortcut طریقوں سے دولت جمع کی جانے لگی اگرچہ وہ راستے سیاہ تر تھے جو اختیار کئے گئے۔فحاشی کو وسیع الظرف سے تعبیر کیا گیا اور باپردہ رہنے کو تنگ نظری کہا جانے لگا۔بدکاری کے لئے ایسے جدید نام متعارف کروائے گئے کہ اب عفت و عصمت کو دوستی یاری اور حرام تعلقات کے لئے ضایع کرنا معاشرے کی عام رسم بن گئی۔ہمارے قلب و نظر کو باطل افکار کا غلام بنادیا گیا۔ہماری پاکدامنی کو پٹری کا مال سمجھا جانے لگا۔ایسی فکری یلغار میں قوم کی رہبری کرنے والے سکوت شب کے مارے ہیں ،بات کرنے اور قوم کی تربیت کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ سماج مخالف ہوگا ۔نتیجتاً عفت و عصمت کے محافظ بھی خطرے میں پڑ گئے۔ضرورت ہے کہ ایک متبادل system قائم ہو جو ان لہروں کا مقابلہ کرسکے لیکن جب قوم کے با صلاحیت ہی خواب خرگوش میں ہونگے تو علاج کیا کیا جائے۔

ماضی بعید کی طرف نظر ڈالی جائے تو ہماری ملت نے عظیم سپوتوں کو جنم دیا جنہوں نے علم و ہنر کے ہر میدان میں روشن تاریخ رقم کی۔ابن سینا ،ابن خلدون ،جابر بن حیان ،محمد بن موسی الخوارضمی ،ابن الھیثم ،امام غزالی وغیرہ ایسے نام ہیں جنہوں نے علمی و فلسفی دنیا میں چار چاند لگا دئے۔ماضی قریب کو اٹھا کر دیکھئے کہ دینی رہنماؤں کی ایک لمبی فہرست ملے گی جنہوں نے تحریری،تالیفی و تقریری میدان میں گمراہ کن افکار کا تعاقب کیا۔ابن تیمیہ ،ابن قیم ،ابن قدامہ ،دہلوی خاندان ،علامہ البانی ،ابن عثیمین ،ابن باز ،مقبل بن ھادی ،شاہ ولی اللہ دہلوی ،نواب صدیق حسن خان بھوپالی کی مثال بطور اسوہ دی جاسکتی ہے۔لیکن جب عصری علوم و فنون و شرعی علم کو جدا کردیا گیا ،لازمی نتیجہ نکلا کہ اہل دین اجنبیت کے شکار ہوگئے۔عصر حاضر میں جدید افکار کی لہریں نوجوان ملت کو لادینیت ،دہریت ،الحاد جیسے بھیانک راستوں پر موڑ دیتے ہیں۔جہاں ایک طرف فاسد نظریات کو خوبصورت بیانیات سے پیش کیا جاتا ہے وہیں دین و مذہب کو ایک optional چیز کی حیثیت دی گئی ہے۔قوم و ملت کے باشعور طبقے کی ذمہ داری ہے کہ جب تک ایک منظم راہ عمل نہ تیار کی جائے تب تک دینی دانشگاہوں ،خانقاہوں ،مدارس و مساجد میں باصلاحیت افراد کا چناو کیا جائے جو کم از کم مربیانہ کردار نبھا سکیں۔دینی تنظیموں پر لازم ہے کہ قوم و ملت کا سرمایہ خیر کے فروغ کے لئے استعمال کیا جائے ،ایسے intelectuals اور scholars کو تیار کیا جائے جو فقہ النوازل پر گہری مہارت رکھتے ہوں۔دینی تنظیموں کے تحت چلنے والے اسکولوں ،کالجوں میں اعلی صلاحیت سے لیث trainers کو منتخب کیا جائے ،ان پر invest کرکے ان کو معاشی فکر غم سے آزاد کیا جائے تاکہ وہ مستقبل کی تباہ کاریوں میں Damage control کا کام کرسکے۔دینی تنظیموں کا کام صرف جمعہ پڑھانا ،تعمیرات کھڑا کرنا ،چندہ ذخیرہ کرنا نہیں ہونا چاہئے بلکہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرکے معصوم بچوں کو ،شباب ملت کو تباہ ہونے سے بچانا ہونا چاہئے۔یہ تبھی ہوگا جب قوم کے غیور افراد accountability کے نظام کو قائم کریں گے۔ ثانیاً دینی مسالک کے ذمہ داران کو مسلکی عصبیت و جمود سے آزاد ہونا چاہئے اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے ،باوجود اختلاف کے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔امت کے وسیع تر مفاد کے لئے اتحاد و اتفاق کی پہل کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے۔بچگانہ حرکات میں مبتلا عصاغر کو قابو میں کرنے کا کام بھی انہیں صدور و ذمہ داران کا ہے۔

کتنی مساجد ایسی ہیں ،کتنے مدارس و تعلیمی مراکز ایسے ہیں ،کتنی تنظیمیں ایسی ہیں جہاں Nepotism کی نحوست نے پورے system کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیا۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’دجال کی آمد سے پہلے کچھ سال مکر و فریب والے آئیں گے، ان سالوں میں بارشیں تو کثرت سے ہونگی لیکن پیداوار کم ہی ہوگی ،ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن، اور اس زمانہ میں ‘رويبضة لوگوں کے اہم امور کے متعلق بات کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا’’رويبضةکیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حقیر اور کمینہ آدمی یعنی گھٹیا اور نا اہل ، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا یعنی نکمے لوگوں کو سرپرست بنایا جائے گا۔‘‘(مسند ابی یعلی ،مسند البزار )

شیخ عمر فاروق نے روزنامہ اسلام میں ان حالات کی تصویر کچھ یوں کھینچی ہے ،فرماتے ہیں ،’’اظہار آزادی رائے کے اس دور میں جتنا ذہنی و فکری انتشار جس تیزی سے پھیل رہا ہے شاید ہی نوجوانوں کے ذہن کسی دور میں اتنے پراگندہ ہوئے ہوں ہر کوئی اپنا چورن بیچ رہا ہے، کوئی سوال کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کررہا ہے تو کوئی جواب کے بہانے اسلام کے بخیے ادھیڑ رہا ہے جبکہ عالمی طاقتوں کے پروردہ ’’بونوں‘‘ کی یلغار اپنی جگہ کام دکھا رہی ہے منبر و محراب کے وارثین کی تیاری بھی اس حوالے سے مکمل نہیں ہے جس کی وجہ سے نوجوان بھٹک رہے ہیں اور بات تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ راتوں رات ’’علامہ‘‘ بننے والے اپنے فلسفے اور ایجنڈے کے مطابق نسل نو کے ذہنوں میں اسلام، اسلامی تعلیمات اور علماء کے متعلق تشکیک پیدا کررہے ہیں۔ عوام کی تو بات ہی الگ ہے، عوام کو بھی خیر و شر کے معیارات کے لحاظ سے سوچنا چاہیے اور اس اعتبار سے اپنا بھی احتساب کرنا چاہیے۔ قائدین کو بھی پرکھنا چاہیے، ورنہ معاشرے کا اخلاقی انحطاط سیاست ، معیشت اور ثقافت کو بد سے بدتر کرتا چلا جائے گا اور اس کا زیادہ نقصان عام لوگوں کو ہی ہوگا اور ہورہا ہے‘‘۔ سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی کتب اس موضوع پر عمدہ مرتب کی گئی ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب ہماری نسلوں کو راہ ہدایت پر رکھے۔آمین
(رابطہ۔ 6005465614 )
[email protected]