’’تین بڑے صوفیاء‘‘۔ڈاکٹر غلام قادر لون کی تازہ تصنیف (۲) تبصرہ

ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر۔بارہمولہ
امام غزالیؒ کی تصنیفات میں سب سے زیادہ مقبولیت ’’احیاء العلوم ‘‘کو ملی۔ اس کی متعدد شرحیں لکھی گئیں۔بقول مصنف اسی کتاب کی وجہ سے امام موصوف اپنی وفات سے لے کر آج تک مسلمانوں کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔علماء کے ایک گروہ نے اس کتاب کی تعریف میں مبالغہ سے کام لیا حالانکہ اس کتاب میں موضوع احادیث کی بھرمار ہے۔ابن رشد کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں :’’اس امت کے لئے جو بہترین دوا تجویز ہوئی تھی اسے سب سے پہلے خوارج نے، اس کے بعدمعتزلہ نے، پھر اشعریوں نے، اس کے بعد صوفیاء نے بدل دیا۔آخر میں ابو حامد(غزالی) نے تو تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیا۔‘‘(ص ۲۴)امام غزالی کی کتابوں میں احادیث، آثار و واقعات، قصے کہانیوں کو بے احتیاطی سے رقم کرنے کے نتیجے میں قاضی عیاض کی ایماء پر اسپین میں ۵۰۰ھ میں مریہ کے مقام پر نزر آتش کی گئیں تھیں۔(ص ۲۵)امام غزالی کے معاصر ناقدین کی اکثریت علماء شریعت تھے جنہوں نے ان کے افکار و نظریات کو آڑے ہاتھوں لیا جس کا مختصر خاکہ زیر تبصرہ کتاب میں موجود ہے،لکھتے ہیں :’’امام غزالی کا پیش کردہ تصوف اسی رہبانیت پر مبنی ہے، جسے ابتدائی دور کے مسلمانوں نے کبھی مستحسن نہیں سمجھا۔البتہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کو شریعت کا لباس پہنایاہے اور اسے اس خوبصورت انداز میں عوام کے سامنے لایے کہ لوگ عش عش کر اٹھے اور حقیقت کی پردہ پوشی کا الزام لگانے کے بجائے انہیں ’’ حجۃ الاسلام ‘‘کا لقب عطا کیا۔ہم عصر علماء نے ان کے اس رویہ پر احتجاج کیا لیکن تصوف کی اثر آفرینی اور پھر امام غزالیؒ کے ساحرانہ انداز نے ان کی آواز دبادی۔‘‘(ص ۳۰)
امام غزالی کے نظریہ تصوف کے منفی اثرات کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر لون صاحب نے ان کی کچھ خوبیوں کا کا بھی کتابچہ میں تذکرہ کیا ہے۔
  دوسرا مضمون قاہرہ کے صوفی بزرگ عمر ابن الفارضؒ (۵۷۶ھ-۶۳۲ھ) پر ہے۔ابن الفارض نے عربی شاعری کے ذریعے اپنے افکار کو ترویج دی۔عربی ادب میں ان کے پایے کا صوفی شاعر مشکل ہی سے ہی ملتا ہے۔متموِّل گھرانے سے تعلق کے باوصف موصوف تعیش پسندانہ زندگی سے اعراض ہی برتتے رہے اور معاشرے سے کنارہ کش ہوکے پہاڑوں، کوہستانی سلسلوں میں تنہا وقت گزارتے تھے؛ مصنف ان کے بارے میں لکھتے ہیں :’’وہ سادگی پسند اور قناعت خو تھے۔وہ انسانی آبادی سے کنارہ کش ہوکر والد کی اجازت سے قاہرہ کے مشرق میں واقع کوہ مقطم پر چلے جاتے تھے اور دن رات قیام کرتے تھےاور جب والد کا انتقال ہوا تو ابن الفارض پوری مستعدی کے ساتھ عرفان و آگہی کی راہ پر گامزن ہوئے۔‘‘(ص ۴۱)ان کی عبادت و ریاضت کا حال بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں :’’ وہ چالیس چالیس روز تک روزہ رکھتے اور رات کو شب بیداری کرتے۔ایک مرتبہ انہوں نے پچاس دن تک مسلسل روزہ رکھا۔یہ سب مجاہدات تادیب نفس کے لئے ہوتے تھے۔‘‘(ص ۴۲)
شیخ ابن الفارض ؒکا شاعری کا ایک دیوان ہے۔بقول مصنف صوفیانہ پہلو سے دیوان میں دو قصیدے بعنوان ’’نظم السلوک ‘‘اور ’’قصیدہ خمریہ ‘‘بہت اہم گردانے جاتے ہیں۔قصیدہ سے ماخوذ چند اشعار کو لون صاحب نے کتاب کی زینت بنایا ہے جس سے ابن الفارض کے افکار واضح ہوتے ہیں، لکھتے ہیں :’’حبِ الہٰی کے صوفیانہ تصور کے سب سے بڑے ترجمان عربی زبان میں ابن الفارض ہیں۔وہ جب اپنی ذات کو محبوب میں فنا کردیتے ہیں تو دوئی کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں عاشق و معشوق، محبّ و محبوب ایک ہوجاتے ہیں۔زمان و مکان کے حدود یکسر ختم ہوجاتے ہیں۔اس وقت عاشق پر یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہ جس سے محبت کرتا تھا وہ اس کی اپنی ذات ہے؛ کیونکہ عاشق کی اپنی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے۔‘‘(ص ۴۶)
    اپنے ان افکار کی وجہ سے ابن الفارض اہل علم طبقے میں موضوع بحث رہے ہیں۔کچھ علماء نے ان پر سخت گرفت کی۔علامہ ابن تیمیہ،ؒ حافظ ابن کثیرؒ، حافظ ذہبیؒ، علامہ سراج الدین بلقینیؒ جیسے جلیل القدر علماء نے بھی ابن الفارض کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جس کی طرف مصنف نے اپنے مضمون میں اشارہ کیا ہے،لکھتے ہیں :’’ان شواہد کی بنا پر بقاعی کے زمانہ (۸۷۵ھ)تک چالیس چوٹی کے علماء نے ابن الفارض کو زندقہ سے منسوب کیا۔گویا ان کے ناقدوں کے الفاظ میں ان کی تکفیر تواتر سے ثابت ہے۔‘‘(ص ۵۳)
اس کے بعد مصنف نے ان چالیس علماء کی فہرست بھی دی ہے جوکہ مختلف مسالک سے تعلق رکھتے تھے۔ مصنف نے ابن تیمیہ کا یہ قول بھی درج کیا ہے کہ ابن الفارض خود کو خدا سمجھتے تھے البتہ جب فرشتے روح قبض کرنے کے لیے آئے تو ان پر حقیقت کھل گئی اور اپنے خیالات و افکار باطل معلوم ہوئے۔(ص ۵۵)
یہ دعویٰ بعیداز فہم ہے۔آخر ایسا کونسا پیمانہ ہے جس سے اندازہ ہوسکے کہ ایک شخص جوکہ جان کنی کے عالم میں مبتلا ہو، روح پرواز کررہی ہو،عین اس کیفیت میں وہ اپنے افکار و نظریات سے تائب ہوکر صحیح راہ کا انتخاب کررہاہے اوراس رجوع پرعین سکرات موت کے وقت لوگوںکومطلع بھی کررہا ہے؟
کتابچہ میں نہایت ہی مختصر مضمون محی الدین ابن عربی ؒپر بھی ہے۔ابن عربی (۵۶۰ھ-۶۳۸ھ) اندلس میں تولد ہوئے۔ ان کے افکار کی دنیا، صوفی بزرگوں میں سب سے زیادہ وسیع ہیں۔’’وحدت الوجود‘‘موصوف کے فکر کا اصل محور ہے۔اس نظریہ کے ردعمل میں ہر زماں ابن عربی کے متعلق خوش فہمیاں و غلط فہمیاں پنپتی رہی۔ ’’وحدت الوجود ‘‘کیا ہے؟ اس بارے میں مصنف ابن عربی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :’’خود ابن عربی نے وحدت الوجود کا تعارف اجمالی طور پر ان لفظوں میں بیان کردیا ہے۔’’ سبحانَ مَن اَظہَرَ الاَشیاء وَھْوَ عینھا‘‘ (پاک ہے وہ ذات جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور جو خود ان کا جوہرِ اصلی ہے)انہوں نے بار بار اپنی اس فکر کو واضح کردیا ہے کہ وجود اصل میں ایک ہے اور یہ عالم اس وجودِ حقیقی کا ایک ظل ہے۔بہ الفاظ دیگر یہ کائنات اللہ تعالیٰ کا ظِل ہے لہٰذاجو کچھ ہم دیکھتے ہیں، وہ اعیان ممکنات میں وجودِ حق کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘(ص ۶۰)
یہ سوچ اور فکر کس قدر گمراہ کن ہے، اس کا اندازہ قرآن و سنت کا علم رکھنے والے اہل علم خود لگاسکتے ہیں۔ ابن عربی کے اس تخیل کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ خالق و مخلوق ایک دوسرے سے غیر نہیں ہیں بلکہ مخلوق ہی عین خالق ہے۔ان میں کوئی دوئی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بت پرستی یا مظاہر پرستی ان کے ہاں معیوب نہیں ہے بلکہ وہ بھی عین اللہ کی عبادت ہے، مصنف ان کی فکر و نظر کا احاطہ یوں کرتے ہیں :’’موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی گوسالہ پرستی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی پرستش تھی۔ابن عربی کے نزدیک فرعون کا حضرت موسیٰ سے یہ سوال کرنا’’ما رب العالمین‘‘ ان کی جہالت پر مبنی نہ تھا بلکہ وہ اس سے بھی واقف تھا کہ موسیٰ کیا جواب دیں گے۔ابن عربی کے بقول فرعون’’ انا ربکم الاعلٰی ‘‘کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب تھا۔اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اگرچہ شانِ ربوبیت کچھ نہ کچھ ہر ایک میں موجود ہے لیکن مجھے تم پر ظاہری حکومت بھی ملی ہے۔‘‘ (ص ۶۱)
ان افکار کی بنا پر ابن عربی کو ابن تیمیہ، ابن قیم اور برہان بقاعی نے بے دین قرار دیا تھا۔
قرآن نے جو دین ہمیں دیا ہے ، اْس کے بارے میں یہ بات بھی پوری وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے وہ پایے تکمیل تک پہنچ گیا ہے اور اْس میں اب کسی اضافے یا کمی کے لیے کوئی گنجایش نہیں رہی۔ پھر یہی نہیں ، قرآن نے یہ بھی بتایا ہے کہ اِس اکمال دین کی صورت میں اتمامِ نعمت بھی ہوا ہے ، لہٰذا عوام و خواص کے وہ سب مراتب جو دین میں مطلوب ہیں ، اْن کے لیے ساری ہدایت اْسی میں ہے ، اْس سے باہر کسی کے لیے کوئی ہدایت نہیں ہے۔قرآن کی رُو سے نبوت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اب نہ کسی کے لیے وحی اور مشاہدئہ غیب کا کوئی امکان ہے اور نہ اِس بنا پر کوئی عصمت و حفاظت اب کسی کو حاصل ہو سکتی ہے۔ ختم نبوت کے یہ معنی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالصراحت بیان فرمائے ہیں۔ آپؐ کا ارشاد ہے:’’نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا ، یہ مبشرات کیا ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خواب۔‘‘(بخاری )
   ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب کی یہ کاوش قابل تعریف ہے۔دین کا صحیح فہم لوگوں تک پہنچانااہل علم پر فرض ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے مضامین کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو۔کتابچہ میں کئی عربی اشعار و اقوال ترجمہ کے بغیر ہیں، عام قاری کے لئے اس کا ترجمہ لازمی تھا۔امید کہ جب یہ باضابطہ کتاب کی صورت تمام تفصیلات کے ساتھ دوبارہ شائع ہوگی تو اس چیز کا خیال رکھا جائے گا۔مزیدابن عربیؒ کے حوالے سے مذکورہ کتابچہ کادامن تنگ ہے،تشنگی باقی رہتی ہے ۔امیداس کابھی مستقبلِ قریب میں ازالہ ہوگا۔ کتابچہ حوالہ جات سے موثق ہے اور ہر خاص و عام کے لئے سبق آموز۔القلم پبلکیشنز بارہمولہ نے اسے عمدہ گیٹ اپ میںشائع کیا ہے۔