اعمالِ صالح انسان کوگوہر فشاں بناتی ہیں | خود شناسی ہر کامیابی کا نقطۂ آغاز ہے

حمیرا فاروق۔ آونیرہ

اس بات سے ہم سب آشنا ہیں کہ انسان دو چیزوں کا مرکب ہے روح اور جسم جہاں روح نکل جائے وہاں جسم مردہ اور روح بغیر جسم کے ایک وجود کامل نہیں پاتا ۔چنانچہ تخلیق بنی آدم دنیا کی ایک اعلی و عرفہ بنیاد ہیں جس کے بعثت پر فرشتوں کی پیشانی ان کے سامنے جھکائی گئی قبل اس سے فرشتوں نے اللہ رب العزت سے کچھ سوالات کیے ۔جب اللہ نے انہیں کہا کہ میں زمین پر نائب بنانے والا ہوں چنانچہ اسی انسان کو جو بغیر زبان اور فہم و فراست سے عاری تھا چیزوں کے نام سکھائے گیے اور دنیا و ما فیہا کے تمام تر مخلوقات پر فضیلت عطا کر دی گئی، لہٰذا اس کی ذمہ داریاں بھی باقی مخلوقات سے الگ اور اعلی ہیں ۔جہاں انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا گیا وہی جانور کو اس سے بے تعلق رکھا گیا انسان میں اُنسیت ودیعت کر دی گئ اور جذبہ احساسات سے پُر رکھا گیا ،برعکس اس کے کہ جانور اس نعمت سے محروم ہیں ۔لیکن اگر اللہ نے انسان پر اتنا بڑا احسان کیا تو بندے پر بھی شکر کرنا اس قدر لازم آتا ہے کہ رب اُس سے راضی ہو جائے ۔لیکن یہ تب ممکن ہے جب انسان خودی پر فکر و تدبر کریں کہ میں اصل میں ہوں کیا ؟۔تب انسان کے اندر وہ حِس بیدار ہو جاتی ہے جو اس کی اصل ہیں کیونکہ بغیر ضمیر انسان مانندِ لاش ہیں جہاں اس سے خدا آزردہ اور ساتھ میں لوگ بھی برہم ہو جاتے ہیں ۔ایک انسان کا وطیرہ ایسا ہونا چاہیے کہ وہ ہمیشہ عاجز و انکساری کی حالت میں خود کی پروردگی کرے تاکہ رب کی سَرگرانی اس پر نازل نہ ہو ۔

دنیا کے دوسرے مخلوقات کی طرزِندگی اگر دیکھا جاے تو قدرت نے ان کو جس کام کے لیے مبعوث کر دیا وہ من و عن بنا تحریف کے اس قدر انجام دیتے ہیں کہ ذرہ برابر بھی نافرمانی کی گنجائش نہیں رہتی ۔اتنی کوئی بھی چیز نالائق نہیں کہ رب کی نافرمانی پر اُتر آئے بغیر جن و انس کے یہ دو گروہ رب کی نافرمانی میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔لیکن باقی مخلوقات اصول و ضوابط کے پابند اتنے کہ گویا وہ مضمون اور ہم انشائیہ ہیں ۔انسانوں کو اگر دیکھا جاے تو اس نے یہاں پہ خود کے لیے الگ مقام بنا کے رکھا وہ یہ کہ نافرمانیوں پہ نافرمانیاں دنیا میں قتل و غارت گری ، حسد و بغض سے پُر قلوب، رشوت اور لوٹ سے بھرے پڑے ہاتھ گویا کہ ایسے گناہوں کا اسیر ، جن کا ٹھکانہ فردوس کے مخالف ہے۔

انسان اگر واقعی انسانیت کا گوہر فروز اور رب کی قربت کا متلاشی ہو تو اس کو چاہیے پہلے خود سے آشنا ہو جائے اور جب انسان خودی کو پا لیتا ہے تو اس کو زندگی میں کبھی کوئی احساس محرومی نہیں ستاتی ۔زندگی گوہر فشاں بن کر مانند موتی ہو جاتی ہے جہاں وہ گوہر شناس بن کر اسرار کائنات اور عباد کو معبود سے جوڑنے کی کوشش میں رہتا ہے پھر انسان نہ دوسروں کے در پہ خود کی تذلیل اور نہ کسی چیز کی تحقیر کرتا ہے ۔بلکہ خود کا قدر شناس بن کر جی لیتا ہے ۔ صحیح اور غلط ،عروج و زوال کو سمجھنے کی صلاحیت اس میں پیوستہ ہو جاتی ہیں ۔غلط جذبات میں سکوت اور اس ہنگامہ زندگی میں سکون کا سما آجاتا ہے ۔ایک طرف سے رب نے انسان کو عزت سے نوازا اور دوسری طرف احسن صورت سے اس مصور نے رنگ برنگی ناک و نقش تیار کیا ایسی صورت گری کہ دیکھنے والے کی عقل دھنگ رہ جاتی ہے اور مصّور کی مصّوری پر حیران ہو کر “ما تکذبان” کا ورد لبوں پہ جاری کر لیتا ہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ خود شناسی کے لیے بندے کا شاکر ہونا لازمی ہے کیونکہ بنا شکور کے یہ چیز انسان کے قابو میں نہیں ۔

انسان کو ازل سے اس چیز کی جستجو ہونی چاہیے کہ جو چیز میرے اندر پنہاں ہے اس کو عیاں کر دوں تاکہ میں سرِجہاں اور خودی سے واقف ہو جاؤں اور طلب ایسی حاصل کریں کہ ستاروں پہ اس کی منزل اور یہ اس کا مسافر بن جائے ۔جو راستے انسان بھول گیا ہوگا اور قدرت نے جن چیزوں سے انسان کی زیست کو مزّین کیا اس کو اُجاگر کریں ۔یہ چیز جس انسان میں بیدار ہو جاے تو شاید کوئی قدرت کے قوانین کو یک قلم موقوف نہ کرے گا ۔کیونکہ تفکر کرنے سے قدرت کے بہت سی چیز ہم پر وا ہو جاتی ہے اور ہم نئے نئے طریقوں سے اس کی مخلوق کو سوچنے اور سمجھنے لگتے ہیں اور اس دل و دماغ کے دریچے بھی کھل جاتے ہیں انسان ایک الگ کیفیت کا پرچار کرتا ہے جہاں اس کے ساتھ ساتھ باقی لوگ بھی گوہر فروز ہو جاتے ہیں ۔لیکن بنیادی شرط اس کے لیے یہ ہیں کہ خود میں غائر ہو جانا اور اپنے آپ میں پنہاں چیزوں سے آشنا ہو جانا تب جا کر انسان کو وہ وقار مل جائے گا جس سے اس کو رب نے ازل سے نوازا تھا ۔ انسان اپنی بےحسی کی وجہ سے آجکل اسلیے بےبسی کا شکار ہے کیونکہ وہ اس قابلِ وجاہت مقام کو بھول گیا جسکی بنا پر اسکو اشرف المخلوقات کے نام سے نوازا گیا ۔ اس مقام کو پانے کیے لیے اور اپنا سفر آخرمیں فلاح پانے کے لیے انسان کو خودی میں غوطہ زن ہونا لازمی ہے ۔اسکے بعد ہی وہ رب کی ذات و صفات کو سمجھ سکتا ہے اور بالخصوص وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا پاس و لحاظ بھی رکھے گا ۔
الغرض خودی وہ چیز ہے جو انسان کو خودار بنا دیتا ہے ،خالق اور مخلوق کے مابین تعلق کو مضبوط بنا دیتی ہے جہاں خدا خود اپنے بندے سے اسکی رضا پوچھ لیتا ہے کہ پتا میرے بندے تجھے کیا چاہیے میں وہ آپکو عطا کردوں گا ۔

[email protected]