اضطرابی کیفیت دور کرنے کی ضرورت

یہ حقیقت اب دن بہ دن عیاں ہوتی جارہی ہے کہ اپنی اس وادیٔ کشمیر کے عوام کی روزمرہ زندگی میںکسی مثبت طریقے پر کوئی راحت اور سہولت پہنچانے کے لئے یہاں کی سرکاری مشینری کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیںکررہی ہے۔بلکہ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ہر معاملے میںعوام کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہاں کے بیشترلوگوں کیلئے پہلے ہی دووقت کی روٹی کاحصول مشکل بنا دیا گیا ہے، ایسے میںروزمرہ استعمال ہونے والی اشیاءکی قیمتوں میں بڑھوتری اور بجلی و پانی کے بلوں میں روز افزوں اضافے،بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑھ رہی تعداد اور روزگار کی نایابی یہاںکے محدود آمدن والے غریب عوام کو اب زندہ درگور ہونے پر مجبور کررہی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں عوام کو ریلیف دلانے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔بلکہ ہر چیز پر ٹیکسوں کی بھرمارسے مہنگائی کو بڑھاوا دے کر عوام کی زندگی مزید مشکل بنا ئی جارہی ہے۔جس کے باعث بیماریوں اور جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔وادی کی زیادہ تر آبادی اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہے لیکن ہماری سرکار کی توجہ بعض ایسے ایشوز پرمرکوز ہے کہ جن کا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس وقت عوام کی ایک خاصی تعداد اپنی گھریلو اشیاء فروخت کرکے روزمرہ استعمال کی جانے والی اشیائے خوردنی کے حصول اور بجلی وپانی کے بلوں کی ادائیگی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ مخدوش حالات اورتاریک مستقبل کو دیکھ کر بیشتر نوجوان ذہنی طور پر بُری طرح مفلوج ہورہے ہیں۔ تعجب ہے کہ جو حکومت عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کی باتیں کرتی رہتی ہے اور عوام کی زندگی کو خوشحال بنانے کے دعوے کرتی رہتی ہے،وہ آج تک محض مہنگائی میںکمی لانے اور اشیاء خور ونوش کی قیمتوں میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی نہیں بنا سکی ہےاور نہ ہی جموں وکشمیر کو خوشحال بنانے سے منسلک کسی بھی سرکاری شعبے کو فعال اور بہتر بنانے میں کامیاب ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔جبکہ سرکاری انتظامیہ کے اس عاقبت نا اندیش پالیسی سے یہاں خوشحالی کی بجائےبَدحالی نظر آتی ہے ،جس کے نتیجے میں ہر سُو اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کے ساتھ بے روزگاری کی شرح میں دن بہ دن اضافہ سے عوام کی اُلجھنیں بڑھ رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری سرکار اپنی نا اہلی کا سارا ملبہ بعض سرکاری اداروں کی اونے پونے نجکاری کر کے چھپا رہی ہے۔ منافع بخش ادارے کرپشن اور کرپٹ افراد کی تعینایتوں کے باعث بدترین خسارے کا شکار ہیں۔ منفعتی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیاں اور کرپٹ افراد کو فراہم کیا جانے والا تحفظ بھی خرابی کا سبب بن رہا ہے ،جس کوموجودہ سرکار نے بھی ٹھیک کرنے کا عزم نہیں دکھایا ہے،جبکہ مرکزی بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار سے بھی عوام کی زندگی مزید اجیرن بنا دی گئی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جہاں عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف ملتا ہوا نظر آتا ہو۔ نہ عید الاضحیٰ سے قبل اور نہ ہی عیدالاضحیٰ کے بعد عوام کو راحت دلانے یا کسی قسم کی سہولت پہنچانے کا نہ کوئی طریقۂ کار اپنایا گیا اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل سامنے آرہا ہےاور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے موجودہ حکومت کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ یہاں کے عوام کو درپیش مسائل کی طرف توجہ دی جائےاور یہاں کے قدرتی وسائل سے اُنہیںاستفادہ دلانے کے منصوبے بنائے جائیں تاکہ بے روز گاری اور بے کاری میں کمی لائی جاسکے۔اسی طرح بجلی اور پانی کی فراہمی کوہر ممکن طریقے پر منظم کیا جائے اور ان کی قیمتوں میں بے جا اضافے کو واپس لیا جائے تاکہ عوام میں جواضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے ،اُسےدور کیا جاسکے۔اسی طرح عوام کی صحت کے تحفظ کے لئے ہمارے یہاں جو طبی مراکز ہیں۔اُن میں بھی بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔دیکھا تو یہی جارہا ہے کہ یہاں کےصحت مراکز سے منسلک تقریباً تمام شعبوں کے زیادہ تر عملے کی کار کردگی کا فعل و طرزِعمل ناقص اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔جس کا زیادہ اثر دیہی علاقوں میں بخوبی نظر آرہا ہے اور لوگ اس بنیادی سہولت سے مستفید نہیں ہوپارہے ہیںاور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔