آفات زدہ متاثرین کی بحالی میں تاخیر نہ کی جائے!

بلاشبہ زمینی اور آسمانی آفتوں کی تاریخ انسانی وجود سےشروع ہوتی ہے،جو آندھی،طوفان ،سیلاب ،زلزلہ ،آتش زدگی ،وبائی بیماری، خشک سالی،بادل پھٹنے،برق گرنے یا زمین دُھسنے کی شکلوں میں نازل ہوکر انسانی آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہے یا بڑے پیمانے پرجانی و مالی نقصانات سے دوچارکرکے اُن کی زندگی تلپٹ کرتی ہے، اُن کے آشیانوں کو کھنڈر بنا کر سارا نظام تہس نہس کرتی ہےاور اُنہیں ہر معاملے میں مفلوج بناکرآلام و مصائب میں مبتلا کردیتی ہے۔گذشتہ شب کو بھی رات کی تاریکی میںڈوڈہ ضلع کے ٹھاٹھری علاقے میں بادل پھٹنے کی وادات میں درجنوں گھرانے متاثرہوئے ہیں،اگرچہ تاحال جانی نقصان ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے تاہم درجنوں رہائشی مکاناتمیں ملبہ گھُسنے اور دراڑیں پڑنے سےلوگ مالی نقصان سے دوچار ہوگئے ہیں۔ چنانچہ وادیٔ کشمیرکے اطراف و اکناف میں رواں سال کے دوران بھی آتش زدگی کی جو سینکڑوںوارداتیں رونماںہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں،وہ بھی آفات ِ الٰہی کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔ بہوری کدل کی حالیہ واردات بھی ہمارے سامنے ہے۔آگ کی وارداتوں میں ہونے والے اثاثوں کے نقصانات کی تفصیل سے دِل ہل جاتےہیں، بہت سارے لوگوں کی نظام زندگی بُری طرح متاثر ہوگئی ہے۔ ان وارداتوں میں اگرچہ جانی نقصان محدود پیمانے پر ہوا ہے لیکن بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ زیادہ تر متاثرین کی نظام ِزندگی اس قدر مفلوج ہوکر رہ گئی ہے کہ بے بسی کے عالم میں بعض متاثرین اپنا ذہنی توازن تک کھو بیٹھتے ہیں اور بے آسرا گھر والوں کے لئےشدید مصائب اوربوجھ کا باعث بن گئے ہیں۔ظاہر ہےکہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق زندگی بھر کی جمع پونجی ،مال و اسباب اور گذر بسر کا آشیانہ جب کسی سےچھِن جائے تو جینے کے لئے اُس کے پاس کیا رہ جاتا ہے۔بے شک اس صورتِ حال کے دورا ن انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق بیشترلوگ نوع ِ انسانی کی مدد کے لئے پیش پیش رہتے ہیںاور انسانیت کے ناطے متاثرین کے ساتھی اور مددگار بن جاتے ہیں۔جبکہ حکومتی ادارے بھی ان موقعوں پر متحرک ہوکر اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتےہیں اور بعض رضاکار تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرکے آتش زدہ گان کو راحت پہنچانے کی حتی المکان کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ سب کچھ تو وقتی طور پر ہوتا رہتا ہے۔اس کے بعد متاثرین انتہائی غیر یقینی صورت حال میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ہاں! کسی بھی قدرتی آفت کے شکار لوگوں کی زندگی بحال کرنےکی اہم ذمہ داری حکومت کی ہی ہوتی ہے،تاکہ متاثرین جسم و جان کا رشتہ برقرا ر رکھ سکیں اوراُن کی زندگی کا نظام بحال ہوسکیں اور وہ اپنے معاشرے میںپہلے جیسے کی طرح زندگی کا گذر بسر کرسکیں،کیونکہ اسی مقصد کے تحت حکومتیں وجود میں آتی ہیںاور ایسے ہی کام سر انجام دینے سے حکومت،حکومت کہلاتی ہے ۔اسی لئے ہر حکومت نے بھی اپنے انتظامی شعبوں میں ایک مخصوص شعبہ بھی قائم کیا ہوتا ہے جو آفت زدہ لوگوں کی دوبارہ بحالی کے کام کاج کے لئے مامور ہوتا ہے۔ لیکن جہاں تک دیکھنے میں آرہا ہے کہ کسی بھی قسم آفات زدہ لوگوں کے لئے حکومت کی طرف سے جو بھی ریلیف منظور ہوتی ہے ،اُسے متاثرین تک پہنچنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے اور وہ بھی تب،جب متاثرین کے بوٹ اور چپل متعلقہ سرکاری اداروں کے چکر لگانے میں گھِس جاتے ہیں۔بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ متاثرین منظور شدہ ریلیف قسطوں میں دی جاتی ہے ،جس کے نتیجے میں متاثرین کے اہل ِخانہ کی زندگی بَد سے بدتر ہوجاتی ہے ۔منجمند کرنے والی سردیاں ہو یا جھُلسا دینے والی گرمیاں اِن ایام میں متاثرین ،بغیر آشیانوں کے زندگی گزارنا کتنا کھٹن مرحلہ ہے۔ یہ تو کوئی بھی ذی حِس اور باشعور انسان بخوبی محسوس کرسکتا ہے ،جبکہ حکومتی انتظامیہ کے متعلقہ اداروں سے منسلک اعلیٰ حکام اور دوسرے ملازمین بھی اس بات کو بخوبی سمجھ پاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اُن اداروں کو متحرک ہونے کے لئے احکامات صادر کریں ،جو آفات سے متاثرہ لوگوں کی راحت اور بحالی کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔اس معاملے میں فائر سروس ، پولیس اور دیگر متعلقہ محکموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ متاثرین کے متعلق اپنی غیر جانبدارانہ تفصیلی رپورٹیں اعلیٰ حکام تک پہنچانے میں دیر نہ کریں۔ تاکہ بلا تاخیر اور بر وقت متاثرین کی ہر وہ سہولت بہم ہوجائے جو اِن آفت زدہ متاثرین کے لئے بطور ایکس گریشا ریلیف منظور کی گئی ہو،اسی عمل سے متاثرین راحت کا سانس لے سکیں گے اور اپنی زندگی کو دوبارہ بحال کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔