امیر المومنین حضرت ِسیدنا عثمان ِغنی ؓ یوم شہادت

افتخار احمد قادری 
امیر المومنین حضرتِ سیدنا عثمان بن عفان رضی الله تعالیٰ عنہ آغاز بعثت میں اسلام لائے۔ آپ کی کنیت ابو عبد الله اور لقب ذو النورین ہے۔ حضرتِ علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہہٗ نے ارشاد فرمایا: عثمان وہ شخصیت ہیں جنہیں ملاء اعلیٰ میں ذو النورین کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ عشرہ مبشرہ میں حضرت عثمان غنی ؓ ممتاز مقام کے حامل ہیں اور قبول اسلام میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ آپ کا لقب غنی اور ذو النورین ہے۔ کیونکہ آپ بیحد مخیر تھے اور مذہب اسلام میں داخلہ لینے کے بعد مسلمانوں خصوصاً اسلامی جنگوں میں آپ نے بیحد مالی اعانت کی، اس لیے آپ کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے غنی کا لقب مرحمت فرمایا اور آپ کے عقد میں حضور اقدسؐ کی دو صاحب زادیاں آئیں، اس لیے آپ کو ذو النورین کا لقب ملا۔آپؓ ان چند صحابہ کرام میں سے ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائے اور جنہیں ایمان لانے والوں میں سبقت کرنے والے کہا جاتا ہے۔ آپ ؓ،حضرت ابو بکر ؓ کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے۔ مسلمان ہونے کے بعد مکہ کے کافروں نے دوسرے مسلمانوں کی طرح آپ کو بھی ستایاگیا۔ خود آپ کے بزرگ حکم بن العاص نے آپ پر بہت سختی کی۔ لیکن اسلام کے دشمن انہیں دین سے برگشتہ نہ کر سکے۔
        حضرت عثمان غنیؓ کے عہد میں قرآن مجید ایک لہجہ اور قرآت پر جمع کیا گیا اور جمع و تدوینِ قرآن کا اور اس کی اشاعت کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا۔ مختلف اقطاع کے لوگ اپنے اپنے لہجے کے مطابق اس کی قرأت کرتے تھے۔ چنانچہ قرأت کی ایک مجلس منعقد کی گئی ،معلوم ہوا حضرت حذیفہ کے پاس خلیفہ اول کے وقت سے ترتیب شدہ جو مسودہ ہے اور جس کی تربیت خود حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہوئی تھی، اسی اصول پر قرآن مجید جمع کیا گیا اور اس کی سورتوں کی ترتیب حضرت حفصہ کے نسخے کے مطابق مسلم قرار پائی۔ حضرتِ عثمان ؓ نے حکم جاری کر دیا کہ تمام مسلمان اپنے اپنے نسخوں کو لے کر حضرت حفصہ کے نسخے کے مطابق کر لیں۔ امیر المومنین حضرت عثمانؓ نے مکمل نسخوں کی اشاعت اپنی مہر لگا کر کی۔ حضرت علی ؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کے اس عمل کو سراہا اور کہا: اگر میں خلیفہ ہوتا تو میں بھی یہی کرتا۔ جمع اور ترتیب قرآن مجید کا یہ حکم تیس ہجری میں جاری اور نافذ ہوا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی وفات سے قبل مدینہ منورہ کے اکابر صحابہ کرام سے مشورہ کر کے حضرت عمر فاروق کا نام خلافت کی ذمہ داری کے لیے تجویز کیا تھا اور خلیفہ اول کی وفات کے بعد مسلمانوں نے حضرت عمر فاروق کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہیں امیر المومنین منتخب کرلیا۔ جب اُن کی وفات قریب ہوئی اور وہ زخمی حالت میں تھے تو انہوں نے چھ حضرات کے اوپر یہ چھوڑا کہ وہ باہمی مشورہ سے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں۔ ان میں حضرتِ عثمان، حضرتِ عبد الرحمن ، حضرتِ علی ، حضرتِ سعد ، حضرتِ زبیر اور حضرتِ طلحہ شامل تھے۔ مذاکرات اور مشوروں کے بعد یکم محرم الحرام 25ہجری کو حضرتِ عثمان خلیفہ مقرر ہوئے اور تین دن تک بیعت کا سلسلہ چلتا رہا۔ غزہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں حضرتِ عثمان غنیؓ  شریک ہوئے۔ جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت رقیہ کی بیماری کی وجہ سے حضور اکرمؐ نے آپ کو مدینہ منورہ میں اپنے جانشین کے طور پر چھوڑ دیا تھا۔ غزوہ احد، غزوہ بنو نضیر، غزوہ خندق، جنگ خیبر اور جنگ حنین میں آپ برابر شریک رہے۔ خلیفہ اول اور خلیفہ دوم کے عہد خلافت میں حضرتِ جامع قرآن نے ان سے مکمل تعاون کیا، ہر معاملے میں ان کے مشیر رہے، مجلس شوریٰ کے انتہائی اہم رکن تصور کیے جاتے تھے اور نہایت صدق و اخلاص کے ساتھ مشورے دیتے تھے۔ حضرتِ فاروق اعظم کی شہادت کے بعد یکم محرم الحرام 24 ہجری مطابق 7 نومبر 644عیسوی بروز یک شنبہ خلیفہ ثالث کی حیثیت سے آپ کا انتخاب عمل میں آیا۔
     حضرتِ سیدنا عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں چوبیس ہجری سے بتیس ہجری تک مشرقی وسطیٰ کی بڑی بڑی مہمات جاری رہیں۔ افریقہ میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ 25ہجری سے 31ہجری تک جاری رہا۔ آپ کے عہد خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود ہندوستان، روس، افغانستان، لیبیا، الجزائر، مراکش اور بحیرہ روم کے جزائر تک وسیع ہوگئیں تھیں۔ فتوحات کا سلسلہ آرمینیا کے علاقے سے شروع ہو کر بحیرہ روم کے جزیرہ ارواہ کی تسخیر پر ختم ہوا۔ مفاد عامہ کے کاموں میں سڑکیں بنوائی گئیں، مہمان خانے تعمیر کرائے گیے، دریا وغیرہ پر پل باندھے گئے، مساجد کثرت سے تعمیر کرائی گئیں، مفتوحہ علاقوں میں چھاؤنیاں قائم کیں، چراگاہوں میں مویشیوں کے لیے چشمے کھدوائے، رعایا کی آسائش کے لیے سڑکیں پل اور مسافر خانے بنوائے۔ سیدنا عثمانؓ نے محرم الحرام 24 ہجری سے ذی الحجہ 35ہجری تک خلافت کے فرائض اور ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے پورے کیے۔ آپ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے بہت ترقی کی اور بہت سے ملک فتح کیے قصر روم کی طاقت کا بھی خاتمہ ہوا۔
       حضرتِ سیدنا عثمان غنیؓ نے 39 ہجری میں مسجد نبوی میں بھی توسیع کی اور مسجد حرام میں بھی توسیع کی۔ حضرتِ علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہہٗ نے ارشاد فرمایا: عثمان ہم سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے متقی اور پرہیز گار تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو ایمان اور تقویٰ میں درجہ کمال حاصل کرلیتے ہیں۔ جس وقت حضور اکرمؐ غزوہ تبوک کا سامان کررہے تھے ،حضرتِ سیدنا عثمانؓ بارگاہِ رسالت مآب ؐ میں حاضر ہوئے اور ایک ہزار اشرفیاں آپ کی گود میں ڈال دیں۔ حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم ان اشرفیوں کو اپنی گود میں الٹتے پلٹتے رہے اور فرماتے تھے: عثمان کو اب کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا آج کے بعد جو چاہیں کریں دو مرتبہ حضور اکرم ؐ نے یہ جملہ دہرایا۔
      حضرتِ سیدنا عثمان غنیؓ کی راتیں عبادت و ریاضت میں بسر ہوتیں۔ ہر روز عشاء کی نماز کی امامت سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہوتے اور وتر کی ادائیگی میں قرآن مجید کی تلاوت کرلیتے تھے۔ جس دن آپ کی شہادت ہونے والی تھی ،آپ روزہ تھے جمعہ کا دن تھا۔جب باغیوں نے آپ کے مکان ما محاصرہ کیا تو ان کی سرکشی اتنی بڑھی کہ دیواریں پھاند کر گھر میں کود گیے۔ حضرتِ عثمان روزے سے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھے۔ اُنہوں نے باغیوں سے کہا: تم سخت غلطی کررہے ہو، اگر مجھے شہید کیا تو مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جائے گا پھر تم نماز تک اکٹھے نہ پڑھ سکو گے۔  18ذی الحجہ 35 ہجری کو حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہ کو قرآن مجید پڑھتے ہوئے شہید کردیا گیا ۔آپ کی زوجہ نائلہ بچانے کے لیے دوڑیں تو ان کی ہتھیلی اور انگلیاں کٹ گئیں۔ اس واقعے کے بعد مسلمانوں کی تلواروں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف چلنے لگیں۔ بلاشبہ امام ذو النورین کی شہادت تاریخ اسلام کا سب سے بڑا سانحہ کہے جانے کا مستحق ہے۔ حضرتِ سیدنا عثمان ؓ نے بارہ سال امور خلافت انجام دیے۔18ذی الحجہ 35ہجری بعمر 82سال جام شہادت نوش فرمایا۔
   فضائلِ سیدنا عثمان غنی:رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرتِ عثمان غنی کے متعلق فرمایا:  الٰہی میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو، عثمان! خدا تمہارے اگلے پچھلے ظاہر اور چھپے ہوئے اور روز قیامت تک ہونے والے گناہ معاف کر دے، جنت میں عثمان میرے رفیق ہوں گے۔ عثمان دنیا و آخرت میں میرے قریبی دوست ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہما نے فرمایا: حضرت عثمان جب رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آنحضرت سمٹ کر بیٹھ جاتے اور اپنے کپڑوں کو بھی سمیٹ لیتے۔ ایک روز کسی نے پوچھا یا حضرت آپ پر میرے ماں باپ قربان آپ عثمان کے آنے پر اس قدر سمٹ کیوں جاتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا ،میں ایسے آدمی سے کیوں شرم نہ کروں جس سے خدا کے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں۔ ( مسلم)
حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ایک روز احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرتِ ابو بکر عمر اور عثمان تھے۔ پہاڑ ہلنے لگا تو آپ نے اپنے پاؤں سے اسے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اے احد ٹھر جا! تجھ پر ایک نبی ہے، ایک صدیق ہے، اوردو شہید ہیں یعنی حضرت عمر اور حضرتِ عثمان (صحیح بخاری)
   حضرت عثمان غنی کے ارشادات:  * دنیا کے رنج و غم سے دل میں تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کے فکر و اندوہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔ * مجھے تین چیزوں مرعوب ہیں۔ بھوکوں کو آسودہ رکھنا- ننگوں کا بدن ڈھاپنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔ * سب سے زیادہ بربادی یہ ہے کہ کسی کو بڑی عمر ملے اور وہ سفر آخرت کی کچھ تیاری نہ کرے۔ * دنیا جس کے لیے قید خانہ ہو قبر اس کے لیے باعثِ راحت ہوگی- محب الله کو تنہائی محبوب ہوتی ہیں۔ * جب لوگوں کو اچھے کام کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ۔ الله رب العزت کے ساتھ تجارت کرو تو بہت نفع ہوگا۔ تعجب ہے اس پر جو دوزخ کو برحق جانتا ہے اور پھر گناہ کرتا ہے۔ تعجب ہے اس پر جو الله کو حق جانتا ہے اور غیروں کا ذکر کرتا ہے اور پھر ان پر بھروسہ کرتا ہے۔ * بندگی کے یہ معنی ہیں کہ مسلمان احکامِ الٰہیہ کی اطاعت کرے جو عہد کسی سے کرے اسے پورا کرے اور جو کچھ مل جائے اس پر صبر کرے۔
  رابطہ 8954728623