جموں و کشمیر کو عبداللہ،مفتی اور گاندھیوں کی’سیاسی جاگیر‘ سے آزاد کرنا میرا مشن : مودی

عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے جموں و کشمیر کے لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ان کا حتمی مشن جموں وکشمیر کو تین خاندانوں کی سیاسی جاگیر سے مکمل آزادی دلانا ہے۔
مودی نے یہ بات سری نگر کے شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں ایک انتخابی ریلی کے دران عوام کے بھاری اجتماع کیساتھ خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز کشمیری میں کیا.
جیسے ہی ہجوم نے مودی، مودی کا نعرہ لگایا، وزیراعظم نے اسٹیج سے کہا’’یہ نیا کشمیر ہے۔ ہماری کوشش جموں و کشمیر کی ترقی اور خوشحالی ہے۔ انھوں نے کہا میں آج دیکھ سکتا ہوں، میرے بھائی اور بہن خوش آمد مودی کا کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ میں دل کی گہرائیوں سے آپ سب کا شکر گزار ہوں۔
مودی نے کہا کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت کا میلہ چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل سات اضلاع میں انتخابات کا پہلا مرحلہ دیکھا گیا، پہلی بار ملی ٹینسی کے سائے کے بغیر پولنگ ہوئی۔انھوں نے کہاکہ یہ واقعی ایک قابل فخر لمحہ تھا کہ کل اتنی بڑی تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے آئے۔ کشتواڑ میں 80 فیصد، ڈوڈہ میں 71 فیصد، رامبن میں 70 فیصد اور کولگام میں 62 فیصد سے زیادہ پولنگ ہوئی۔ اس فیصد نے پچھلے ریکارڈ کو توڑ دیا ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگوں نے تاریخ میں ایک نیا باب لکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگ کس طرح ہندوستانی جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں۔اس کے لئے، میں جموں و کشمیر کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں،انہوں نے کہا۔ ریاستی حیثیت کے بارے میں مودی نے کہا کہ بی جے پی نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے اور یہ صرف بی جے پی کرے گی۔
انھوں نے کہا ان نیتوں خاندانوں کا لگتا ہے کوئی ہم پر سوال نہیں کر سکتا، ان تینوں خاندانوں کو لگتا ہے کہ جموں وکشمیر کو لوٹنا اِن کا پیدائش حق ہے، جموں وکشمیر کی عوام کو اُن کے جائز حق سے محروم رکھنا ہی ان کے سیاسی ایجنڈا رہا ہے ، ان تینوں خاندانوں نے جموں وکشمیر کو تشدید، ڈر، انتشار اور ظلم کے سوا کچھ نہیں دیا ہے ،لیکن اب جموں و کشمیر اِن تین خاندانوں کے شکنجے میں رہنے والا نہیں ، اب یہاں کا ہمارا نوجوان اِن تینوں خاندانوں کو چیلنج کر رہا ہے، جن نوجوانوں کو انھوں نے آگے بڑھنے نہیں دیا وہی نوجوان اب ان کے خلاف میدان میں آرہے ہیں۔
ان تین خاندانوں کے راج میں جموں و کشمیر کے نوجوانوں نے جو تکلیفیں اٹھائیں ہیںوہ اب اِس سے باہر نہیں آپا رہا ہے، آج وادی کا جو 30/35سالہ نوجوان ہے وہ پڑھائی سے محروم رہ گیا ہے ۔بہت سارے ایسے ہیں جنھوں نے دسویں یا کالج تک پہنچے میں دیش کے باقی بچوں سے زیادہ برس لگے ہیں، یہ سب ایسے ہی نہیں ہوا کہ نوجوان فیل ہوئے بلکہ یہ اِس لئے ہوا کیونکہ کانگریس، پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس جموں وکشمیر کو چلانے میں فیل ہوئے تھے۔
انھوں نے اپنی سیاسی دکان چلانے کیلئے دہائیوں تک نفرت کا سامان بیچا ہے، کشمیر میں جو سکول جلائےگئے وہ آگ بھی اِن کے نفرت کے بازار میں ہی بکتی تھی ۔یہ لوگ نئے سکول نہیں بناتے تھے بلکہ جو سکول تھے یہ لوگ اُن سکولوں کو آگے کے حوالے کرنے والوں کو شے دیتے تھے۔جو سکول،کالج بچ گئے وہاں بھی کئی کئی مہینوں تک پڑھائی نہیں ہو پاتی تھی، ہمارے نوجوانوں سکولوں سے باہر تھے، تعلیم سے دور تھے اور یہ تینوں خاندان اُن بچوں کے ہاتھوں میں پتھر تھما کر خوش ہوتے تھے۔
ان لوگوں نے اپنے مفاد کیلئے ہمارے بچوں کا مستقبل برباد کیا ہے۔جموں وکشمیر کو ملی ٹینسی سے آزاد کرانا، جموں وکشمیر کے خلاف سازش کرنے والی ہر طاقت کو ہراناہے،یہاں کے نوجوانوں کو یہیں پر روزگار کے مواقعے فراہم کرنا مودی کا ارادہ ہے ،مودی کا وعدہ ہے۔مودی نے کہا کہ ان کا مشن ملی ٹینسی کو شکست دینا اور جموں و کشمیر کو دوبارہ خاندانی راج کا شکار نہ ہونے دینا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ان کا مشن جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو کافی مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا انتخاب اپنی جگہ پر کریں۔
انہوں نے کہا کہ 1980 کے بعد سے، یہ تینوں خاندان جموں و کشمیر کو اپنی “سیاسی جاگیر” سمجھ رہے ہیں کیونکہ وہ پنچایت، بلاک ڈیولپمنٹ کونسل اور ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل (ڈی ڈی سی) کے انتخابات کرانے میں کبھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ مودی نے کہا، ’’وہ جانتے تھے کہ اگر وہ یہ انتخابات کراتے ہیں تو نئے چہرے سامنے آئیں گے اور وہ ان پارٹیوں کو چیلنج کریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک مقدس مقام ہے جسے تینوں فریقوں نے 35 سال تک تباہ کیا۔ اس جگہ پر حضرت بل، چرار شریف، خواجہ نقشبند کا مزار، شنکر اچاریہ اور ماتا زیتشا دیوی کا مندر ہے۔ لیکن تینوں پارٹیوں نے جموں و کشمیر میں سیاہ دن لائے۔
انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب لال چوک سورج غروب ہونے سے پہلے بند ہو جاتا تھا۔ ’’لال چوک جانا ماضی قریب تک موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ لیکن اب بازار رات گئے تک کھلا رہتا ہے۔ عید اور دیوالی ایک ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ منائی جاتی ہیں۔ الیکٹرک بسیں چل رہی ہیں اور ہر کوئی عزت کے ساتھ روزی روٹی کما رہا ہے،‘‘ مودی نے لوگوں سے پوچھا ’’یہ سب کس نے کیا؟‘‘
مودی نے کہا کہ تینوں جماعتوں نے کشمیری پنڈتوں کو بھی نہیں بخشا اور انہیں بھاگنے پر مجبور کیا۔سکھوں کو بھی غصے کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے نفرت پیدا کی۔ بی جے پی دل اور دل کی دوری کو کم کرکے ایک بار پھر لوگوں کو متحد کررہی ہے۔
مودی نے کہا کہ پچھلے 35 سالوں میں 3000 دنوں میں ہرتال اور بند دیکھنے کو ملے۔ اس کا مطلب ہے کہ کشمیر 35 سالوں میں سے آٹھ سال تک بند رہا۔ لیکن پچھلے پانچ سالوں میں آٹھ گھنٹے تک بند نہیں ہوا،۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہند پی ایم سوریہ گھر یوجنا کے ذریعے مفت بجلی پر غور کر رہی ہے جس میں فی خاندان 80000 روپے سبسڈی دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اپنی 40 منٹ کی تقریر کے اختتام پر مودی نے صوفی یوسف، ایر اعجاز حسین اور عارف راجہ کے لیے ووٹ مانگے۔ ’’بڑی تعداد میں باہر آئیں اور 25 ستمبر کو تمام ریکارڈنگ توڑ دیں،‘‘ مودی نے لوگوں سے اپیل کی۔