زیرِ حراست افراد کو جموں و کشمیر سے باہر جیلوں میں منتقل کرنا قومی سلامتی کا معاملہ ہے: مرکز

File Photo

نئی دہلی//مرکز نے پیر کے روز سپریم کورٹ کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت زیر حراست 20 سے زیادہ لوگوں کوباہر کی جیلوں میں منتقل کرنے کے معاملات میں “قومی سلامتی” کے مسائل شامل ہیں۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا اور جے بی پاردی والا کی بنچ سری نگر کی رہائشی راجہ بیگم اور تین دیگر کی طرف سے وکیل ستیہ مترا کے ذریعے دائر کی گئی ایک عرضی کی سماعت کر رہی تھی جس میں قانون کی دفعات کی مبینہ خلاف ورزی میں نظربندوں کو یوٹی سے باہر کی جیلوں میں منتقل کرنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے کہا، ”ہم ہدایات لیں گے لیکن یہ حقیقی قومی سلامتی کے مسائل ہیں۔ یہ اتنا آسان نہیں ہوسکتا ہے جتنا کہ دو لوگوں کے درمیان بات چیت۔ عارف احمد شیخ ولد راجہ بیگم ساکن سری نگر کے پارم پورہ کو اتر پردیش کے وارانسی کی سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔ انہیں گزشتہ سال 7 اپریل کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا تھا“۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ پبلک سیفٹی قانون کے تحت حراست میں لیے گئے 20 سے زیادہ لوگوں کو یوٹی جیلوں سے باہر اتر پردیش اور ہریانہ کی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ ان کے اہل خانہ زیر حراست افراد سے بات چیت کرنے اور ملنے سے قاصر ہیں۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے بے حد تکلیف اٹھائی ہے۔ ان سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ خاندان کے افراد کو بات چیت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کا تعلق انتہائی غریب پس منظر سے ہے اور ان کے لیے ان (شیخ) سے ملنے کے لیے سفر کرنا ناممکن ہے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے کی مزید سماعت 5 اپریل کو ملتوی کردی۔
گزشتہ سال 4 نومبر کو سپریم کورٹ نے اس عرضی پر مرکز، جموں و کشمیر حکومت اور دیگر سے جواب طلب کیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ مقامی قانون کے تحت حراست میں لیے گئے لوگوں کو یوٹی سے باہر نہیں منتقل کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ قانون صرف یوٹی پر لاگو ہوتا ہے۔
یہ لوگ جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ 1978 کی دفعات کے تحت احتیاطی حراست میں ہیں۔