SCREAMING SILENCE

نام کتاب؛ Screaming Silence 
مصنف؛ ڈاکٹر مدثر احمد غوری
سن اشاعت؛2021
ناشر؛ Ink Links Publishing House J&K
ڈاکٹر مدثر احمد غوری کا تعلق کشمیر کے موضع تلنگام پلوامہ سے ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گائوں کے اسکول گورنمنٹ مڈل اسکول تلنگام سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر مدثر نے جھانسی کا رخ کیا اور وہاں سے انگریزی میں پوسٹ گریجویشن گولڈ میڈل حاصل کرنے کے ساتھ مکمل کی۔ بعد میں ایم فل کی ڈگری وکرم یونیورسٹی اُجین سے 2014ء میں حاصل کی۔اس کے بعد انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی سے امتیازی شان کے ساتھ حاصل کی ۔ مصنف اس وقت مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے ڈی ڈی ای کے شعبۂ انگریزی میں بحیثیت گیسٹ فیکلٹی کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر مدثر احمد غوری محقق بھی ہیں، شاعر بھی ہیں اور نقاد بھیــــ"Screaming Silence"  ان کی پہلی تصنیف ہے۔ مگر ان کی اصل شناخت بحیثیت محقق کے ہیں۔ ان کے کئی تحقیقی مضامین مختلف قومی اور بین الاقوامی رسالوں وجریدوں اور اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔ ان مضامین اور زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مدثر تحقیقی ذہن اورتخلیقی وفور کے مالک ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب اس میں رہنے والے تمام عوام کی ترقی اور نشونما یکساں طور پر کی جائے اگر کسی طبقے کو پس پشت رکھ دیا جائے تو کسی بھی ملک یا قوم کی مکمل ترقی ناممکن ہے سماج کے تمام طبقوں کا مکمل صحت مند ہونا ضروری ہے لہذا سماج کے کسی بھی طبقہ کو نظراندازکردینااپنے آپ میں کئی پیچیدہ مسائل کو جنم دینے کے مترادف ہے۔  "Screaming Silence" انہی خیالات، احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔
زیر نظر کتاب میں مصنف تخلیقی دبازت اور فنی ہنر مندی کا اس طرح نقش پیش کرتے ہیں کہ ہر نظم ایک جیتے جاگتے تجربے کی طرح حواس پر وارد ہوتی ہے۔کتاب میں شامل 50 پُراثرانگریزی نظمیں قاری کے ذہن پر سکوت، خاموشی اورکشمیر میںجاری شورش اور ٹکراؤسے وقوع پذیر ہونے والے نامساعد حالات سے متاثرہ لوگوں کی تکلیف دہ زندگی کا احاطہ بھی پیش کرتی ہیں۔نیز یہاں کے لوگوں کے تئیں حکام کی بے حسی، عدم توجہی اور ان کی زندگی میں غم، تکلیف اور پریشانی دیکھ کر مصنف کو سخت تشویش لاحق ہے اور وہ خاموش زبان میںجمہوریت کی بنیاد پر اپنا احتجاج بھی درج کراتے ہیں۔ زیر نظر تصنیف میں پچاس نظمیں مختلف عنوانات پر تحریر کی گئیں ہیں مثلاً Condolence, Repentance, Dreams, Memory, Harmony, Unending Grief, Kunan Poshpora, Mercy, Journey of Love, Poverty, Hope, Eternal Meet, Tough Times, Heartthrob,Silenceوغیرہ شامل ہیں۔ مصنف نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے احساسات اپنی ایک نظم "Silence"میں کچھ اس طرح سے بکھیر دیئے ہیں:
Words and silence 
Meanings not confirmed
sense uncomprehended
Metaphors useless
Images futile
The stillness is personified
The colossal words
Have melted in silence
And served
The aim of illuminating
اسی انداز میں مصنف ماضی کی تلخ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اپنے رنج و غم اپنی ایک اور نظم "Fade Days"میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں :
The crackle of brylogs in the hearth
Peel my agonies
And burn them forever
دور جدید کا شاعر ہونے کے باوجود ڈاکٹر مدثر نے اپنے آبائی وطن کشمیر کے بہت سے قدیم مشہور و معروف شعراء جیسے رسل میرؔ، حبہ خاتون، مہجورؔ، محمود گامیؔ، مقبول شاہ کرالہ واری، شیخ العالم، سمد میرؔ، لل دید، ؔاحد زرگر، وہاب کھار، رحمان راہیؔ اور رجب حامدؔکا ذکر اپنی کتاب میں کچھ اس طرح سے کیا ہے:
Journey of Love
Oh,  my love…!
I am waiting for you
Like Rasul Mir for his beloved,
Frenzied and excited to have
One sight
Before we depart.
We shall tour to the vale of love
Sightsee the places
Where the Nightingale
Habba Khatoon and Yousuf Shah met.
A journey to pastures
Where Mehjoor sitting by the side of the tree trunk
Compiled his masterpiece
Sahiboo sath cham meh chaeney…'
ــThen voyage to the hamlet of Mahmood Ghami
Humming "bram dith wajenes naavey"
We will visit the grasslands of Maqbool Kralwari
Singing Gulrez, embracing each other.
Oh, my love!
We shall recite the Shruekh of Nundresh
Vakhs of Lalle Ded
And narrate Rubai of Nazki
Melodies of Rahman Rahi.
With a handful collection of
Samad Mir and Ahad zargar
Sufi songs of Soch Kral and
Wahab Khaar take some rest
Finally, will land back in the world of
Miseries and sorrows singing
Rajab Hamid's Afsoos Duniya…
چونکہ ڈاکٹر مدثر ایک نوآمو زشاعر ہیںلہذا ان کی اس پہلی تصنیف میں سقم کا پایا جانا لازمی ہے۔وہ اپنی کتاب میںکسی بندش میں رہے بغیر اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔اس طرح شاعری کا پیمانہ کہیں کہیں متزلزل ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔اپنی بات واشگاف انداز میں سب کے سامنے رکھنے سے نظموں کا سائز بھی اپنے ڈگر پر رہنے سے قاصر رہا ہے۔ لیکن یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ مذکورہ کتاب کوکئی معنوںمیں ایک کامیاب تصنیف شمار کیا جاسکتا ہے جس کا احساس اس کتاب کے مطالعہ کرنے سے بخوبی ہوتا ہے۔مبصر نے کتاب کا مطالعہ کرکے اسے انگریزی ادب سے تعلق رکھنے والوںکے ساتھ ساتھ دوسرے پڑھے لکھے ذی حس طبقے کے لیے ایک قابل قدر سرمایہ سے تعبیر کیاہے۔زیر نظر کتاب صاف و سلیس زبان میں تحریر کی گئی ہے۔جس میں سماج کے کئی پہلوئوں کا ذکرآسان الفاظ میں کیا گیا ہے ۔غور سے دیکھا جائے تو کتاب کا  Cover Pageاور Title بڑی مماثلت رکھتا ہے چونکہ Screaming Silence ایک دلچسپ اور غور طلب عنوان ہے اور اسی عنوان کے عین مطابق مصنف اپنی کتاب میں خاموشی کے ساتھ بہت کچھ بول دیتے ہیں چونکہ خاموشی بھی ایک زبان ہوا کرتی ہے لہذا مصنف خاموشی کا سہارا لیتے ہوئے زور زور سے اپنی تصنیف میںچلاتے نظرآتے ہیں۔علاوہ ازیں کتاب کی پالیسی بہترین اندز میں عمل میں لائی گئی ہے۔ کتاب کا  Forewordانگریزی ادب میں لسانیات کے ایک بڑے ماہر اور مایہ ناز شخصیت پروفیسر سید محمد حسیب الدین قادری نے تحریر فرمایا ہے۔ کتاب کا  Preface ہندوستان کے ایک بڑے شاعرپروفیسرWilliamsji Maveliنے تحریر کیا ہے۔کتاب کا مطالعہ کرنے سے ایک قاری کو زندگی کے مختلف پہلوئوں اور حالات و واقعات سے متعلق بڑی اہم ، مدلل اور مفصل جانکاری فراہم ہوسکتی ہے لہذا مذکورہ کتاب کا مطالعہ ایک قاری کے لیے نہایت ہی کارآمدثابت ہوسکتا ہے۔