حریت نے ہمیشہ بات چیت کی وکالت کی، تشدد سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا: میر واعظ

یو این آئی

سرینگر// میرواعظ مولوی عمر فاروق نے جمعے کے روز کشمیر کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔انہوں نے کہاکہ حریت نے آنجہانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، ڈاکٹر منموہن سنگھ اور ایل کے ایڈوانی کے ساتھ بات چیت کی اور یہ ہماری اصولی موقف رہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
میرواعظ نے امید ظاہر کی کہ انتخابات کے نتائج کے بعد یہاں کی سیاسی جماعتیں متحد ہوکر عوامی مفادات اوریہاں کے عوام کے بچے کچھے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔
ان باتوں کا اظہار میر واعظ نے نماز جمعہ سے قبل تاریخی جامع مسجد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران کیا۔
انہوں نے کہاکہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد ہی ریاستی حکام نے انہیں چار جمعہ کے وقفے کے بعد مرکزی جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی اور وعظ و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کیلئے رہا کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ حکام اپنی مرضی سے انکو حراست میں رکھتے ہیں اور پھر اپنے اقدام سے مکر بھی جاتے ہیں جبکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جموںوکشمیر میں بڑے پیمانے پر سیاسی اور مذہبی رہنماوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔
میرواعظ نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اس خطے کیلئے امن کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ ہماری کمزور ی نہیں بلکہ یہ ہمارا موقف ہے اور کشمیر ی عوام کے جذبا ت اور احساسات کی ترجمانی کے حوالے سے حریت کانفرنس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک جموں وکشمیر کا ایک حصہ ہندوستان ، ایک حصہ پاکستان اور کچھ حصہ چین کے پاس ہے خاص طور پر 2019 کے بعد جس طرح دونوں ممالک اس ریاست پر اپنا حق جتلا رہے ہیں تب تک اس خطے کا سیاسی مستقبل غیر یقینیت کا شکار رہے گا۔ ہم اس صورتحال کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
میر واعظ مولوی عمر فاروق نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں آج کل جو ہو رہا ہے اور فلسطینی تنازع کس طرح ایک پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بن رہا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہاں کے عوام کے حقوق کو تسلیم کئے جانے کے بجائے ان کو طاقت اور فوجی قوت کے بل پر دبایا جارہا ہے جس سے ہزاروں افراد جن میں بچے ، عورتیں شامل ہیں۔
ان کے مطابق اگرچہ کشمیری عوام خود مظلومیت اور محکومیت کے شکار ہیں تاہم فلسطین اور لبنان کے عوام کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ مصیبت اور آزمائش کی اس گھڑی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ان کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں۔
میرواعظ نے عالمی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کے دہرے معیار کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف وہاں جنگ بندی اور قیام امن کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف تباہ کن ہتھیاروں اور دوسرے ذرائع سے اسرائیل کی بھر پور مد کررہا ہے تاکہ مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھ سکے۔
میرواعظ نے کہا کہ ہم اس خطے میں فلسطین جیسی صورتحال نہیں چاہتے بلکہ ہم نے بار بار ذرائع ابلاغ کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی وکالت کی ہے۔
انہوں نے اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا کہ مسلم اکثریتی ریاست میں ایسے قوانین کو لایا جارہا ہے جن سے یہاں کے عوام کی مذہبی آزادی کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ ربیع الاول کے مقدس مہینے میں میلاد النبی (ص) کی چھٹی کو منسوخ کرنا اور دوسرے دن چھٹی دینا اور یہاں کے عوام کے مذہبی حقوق کو طاقت اور قوت کے بل پر دبانا کسی بھی طور قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ رویت ہلال کا تعلق ایک دینی اور جغرافیائی مسئلہ ہے اور اس کو ہندوستان اور پاکستان کا مسئلہ بنانے سے گریز کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ 2019 کے بعد تنظیم نو ایکٹ لاگو ہونے کے بعد یہاں کے عوام خود کو بے بس اور خوفزدہ محسوس کررہے ہیں ، انکے اختیارات کو سلب کیا گیا ہے۔ زمینوں ، نوکریوں اور جائیداد اور انکے وسائل کو چھینا جارہا ہے جس سے کہ ایک خوف کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ لوگ بات کرنے سے بھی ڈر محسوس کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے اور ہم نے ہمیشہ اس مسئلہ کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھنے پر زور دیا ہے۔ ہم کشمیری پنڈتوں کے مسئلہ کو بھی ایک انسانی مسئلہ سمجھتے ہیں اور ان کی باعزت واپسی کے خواہاں ہےں اور بدقسمتی سے کچھ لوگ اس انسانی مسئلہ پر بھی اپنی سیاست کے ذریعے اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
میرواعظ نے کہا کہ کشمیر میں ہو رہے حالیہ انتخابات کا مسئلہ کشمیر کے حل سے جوڑنا حقائق سے بعید ہے کیونکہ انتخابات مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہاں کے عوام کے جذبات اور امنگوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جموںوکشمیر میں تنظیم نو قانون کے تحت قائم ہونے والی اسمبلی کو پہلے ہی بے اختیار کردیا گیا ہے اور یو ٹی کے لیفٹیننٹ گورنر کو مزید وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں۔
میرواعظ نے کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس اہم مرحلے پر یہاں کی سیاسی تنظیموں نے جنہوں نے انتخابات میں حصہ لیا خود متحد نہیں ہوسکے اور انہوں نے قومی مفاد پر ذاتی اور جماعتی مفادات کو ترجیح دی ہے جس کی وجہ سے وہ متوقع چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
میرواعظ نے امید ظاہر کی کہ انتخابات کے نتائج کے بعد یہاں کی سیاسی جماعتیں متحد ہوکر عوامی مفادات اوریہاں کے عوام کے بچے کچھے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔