حسنین مسعودی نے میوہ صنعت کو درپیش چیلنجوں کا معاملہ لوک سبھا میں اُٹھایا

File Photo

یو این آئی

سری نگر//جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان برائے جنوبی کشمیر جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے آج پارلیمنٹ میں کشمیر کی میوہ صنعت کو درپیش چیلنجوں کا معاملہ اُٹھایا اور مرکزی حکومت پر اس جانب فوری توجہ مرکوز کرنے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا کہ میوہ صنعت کشمیر کی معیشت کیلئے ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، کشمیر میں 30لاکھ میٹرک ٹن کے قریب میوہ کی پیداوار ہوتی ہے، جن میں سب سے زیادہ سیب کی پیدا ہوتا ہے اور یہ سارا میوہ کمرشل پراسسنگ کی سہولیات بہت ہی کم کی وجہ سے درآمد کیا جاتا ہے۔
کشمیر سے ہر سال 5کروڑ میوہ پیٹیاں درآمد ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے امسال انتہائی غیر ضروری طور پر سرینگر جموں قومی شاہراہ پر میوہ ٹرکوں کی آمد و رفت پر قدغن لگاگئی۔ انہوں نے کہاکہ قومی شاہرا پر نقل و حرکت کی پابندی سے میوہ باہری منڈیوں تک پہنچے سے پہلے ہی سڑ گیا اور کسانوں کو بہت زیادہ نقصان کا سامناکرنا پڑا ۔
حالات اس قدر ناگفتہ بہہ ہوگئے ہیں کہ مالکانِ باغات کو پیکیجنگ اور ٹرانسپوٹریشن پر ہوا خرچہ بھی حاصل نہیں ہورہاہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پیکیجنگ پر 15فیصد جی ایس ٹی کا اطلاق کسانوں کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کررہاہے۔
مسعودی نے کہا کہ میوہ صنعت سے جڑے افراد کیلئے دوسرا سب سے بڑا چیلنج سیبوں کی گرتی ہوئی قیمتیں ہیں، جس سے کسانوں کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامناہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس بات کو ضروری دیکھنا ہے کہ سیبوں کی قیمتیں کم کیوں ہورہی ہے؟ کہیں باہری ممالک سے سیبوں کی برآمد اس کیلئے ذمہ دار تو نہیں؟
مسعودی نے حکومت سے سوال کیا کہ اگر ہماچل اور کشمیر میں اعلیٰ قسم کے سیب دستیاب ہیں تو پھر باہری ممالک سے سیبوں کی درآمد کیوں ہورہی ہے؟
انہوں نے کہا کہ نیشنل ہائی وے پر میوہ بردار ٹرکوں کو بلاوجہ روکنا اور دوسری جانب باہری ممالک سے سیب درآمد کرنا بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس بات کو ضروری دیکھنا چاہئے کہ کہیں یہ اقدامات کشمیر کی معیشت کو جان بوجھ کر ختم کرنے کی کوشش تو نہیں ہورہی ہے؟
مسعودی نے مرکزی حکومت پر زور دیا کہ سیبوں کی درآمد پر فوری طور پر روک لگائی جانی چاہئے اور پیکیجنگ پر 15فیصد جی ایس ٹی میں کمی کیلئے نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ امسال میوہ صنعت سے جڑے افراد کو ہوئے نقصان کی برپائی کرنے کیلئے ایک ریلیف پیکیج کا اعلان بھی کیا جائے۔