عظمیٰ نیوزڈیسک
نئی دہلی//وزیر اعظم نریندر مودی کابینہ نے بدھ کے روز ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی تجویز کو منظوری دے دی، جس کا مقصد لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کو ایک ہی شیڈول میں ہم آہنگ کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق ’ایک ملک ، ایک انتخاب‘ بل پارلیمنٹ کے آئندہ سرمائی اجلاس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی پینل نے بدھ کو مرکزی کابینہ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کے بعد یہ پیش رفت سامنے آئی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ یوم آزادی کے موقع پر اپنے خطاب کے دوران ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی وکالت کی تھی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ بار بار انتخابات ملک کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔
‘ایک ملک ، ایک الیکشن کیا ہے اور یہ کیسے کام کر سکتا ہے۔
’ایک ملک ، ایک انتخاب‘ کا مقصد پورے ملک میں بیک وقت انتخابات کا انعقاد کرتاہے، جس کا مطلب ہے کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوں گے۔
’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کا نظریہ سب سے پہلے 1980 کی دہائی میں پیش کیا گیا تھا۔ جسٹس بی پی جیون ریڈی کی سربراہی میں لا کمیشن نے مئی 1999 میں اپنی 170 ویں رپورٹ میں کہا تھا کہ ’’ہمیں اس صورت حال کی طرف واپس جانا چاہیے جہاں لوک سبھا اور تمام قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں‘‘۔
لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات 1951-52، 1957، 1962 اور 1967 میں ایک ساتھ ہوئے تھے۔ تاہم، اسمبلیوں کے قبل از وقت تحلیل ہونے کی وجہ سے ریاستی اسمبلیوں کا سلسلہ درہم برہم ہو گیا تھا۔ لوک سبھا کو بھی 1970 کے اوائل میں تحلیل کر دیا گیا تھا۔
اپوزیشن نے ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کی مخالفت کی، بی جے پی نے جوابی وار کیا۔
کانگریس، عام آدمی پارٹی اور شیو سینا (یو بی ٹی) سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے ‘ایک ملک، ایک انتخاب کی مخالفت کی، اور الزام لگایا کہ بی جے پی پارلیمانی طرز حکومت کو صدارتی نظام سے بدلنے کے لیے بیک وقت انتخابات کی تجویز دے رہی ہے۔
اس تجویز کی منظوری پر مرکزی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے ٹی ایم سی کے رکن پارلیمنٹ ڈیرک اوبرائن نے کہا، ’’ایک ملک، ایک انتخاب جمہوریت مخالف بی جے پی کا ایک اور سستا اسٹنٹ ہے۔‘‘
دریں اثنا، بی جے پی کے ‘ایک ملک، ایک انتخاب کے نعرے کی قیادت خود وزیر اعظم مودی کر رہے تھے۔ دراصل، زعفرانی پارٹی نے عام انتخابات کے لیے اپنے منشور میں بیک وقت انتخابات کا وعدہ بھی کیا تھا۔