2018ء الوداع!

سا ل  2018کشمیر ی عوام کے لئے ہر سال کی طرح ایک بڑے درد کرب خوں آشام امتحانوں کا سال رہا کیونکہ یہ سال بھی گزشتہ کئی برسوں کی طرح عام انسانوں کو غموں ،المیوں ِ،مایوسیوں اور افسردگی کے سوا کچھ نہ دے سکا۔کشمیر کی سرسبز وادیاں ،کوہسار، آبشار، دشت وبیابان، باغات اورسیرگاہیں اپنی خوبصورتی اورجاذبیت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ یہ نہ صرف ملک کے کونے کونے سے سیاحوں کو اپنے طرف متوجہ کرتے ہیں بلکہ ان سے کشمیر کی معیشت کو بڑھاوا ملتا ہے ۔ ہمارا وطن اپنی تہذیب وثقافت میں بھی ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے ، فطرت کی عطایا اور اہل کشمیرکی انسانیت و شرافت کے حوالے سے ا س سرزمین کو جنتِ ارضی کہا جاتاتھالیکن اب کشمیر جنت نہیں بلکہ حاکمانِ وقت کے ہاتھوں دوزخ بنا ہواہے۔
 سال۱۷ ۲۰کے زخم مندمل نہ  ہوئے تھے کہ ۲۰۱۸ء نے اپنا پڑاؤ ڈالا ، لوگ اس اُمید میں تھے کہ ان زخموں کے لیے نیاسال مرہم بن کے آئے گا ،لیکن یہ خواب بھی ٹوٹ گیا جب رواں سال نے پوری انسانیت کو اپنا نشانہ بن کر اسے ایسے گہرے زخم دئے جو اہل کشمیر کو ہمیشہ تڑپاتے رہیں گے۔ ایک اچھے کل کا انتظارتو اس لئے کیا جاتا کہ شاید آج کے رنج وغم کی تلافی ہو لیکن اس کل سے اُمید ہی کیا رکھئے جو کل آج سے بدتر ہو۔ سال رواں میں وقت کے حاکم خصوصیت کے ساتھ اتنے سنگ دل ثابت ہوئے کہ الاماں والحفیظ۔ انہوں نے عوام کی امیدوں پر وقت وقت پانی پھیر دیا ۔ جب بی جے پی اور پی ڈی پی نے حکومت بنائے تھی تو دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے صرف کرسی کے لیے ملیں، ورنہ آگ اور پانی میں کاہے کی دوستی ہو سکتی ہے لیکن اس حکومت کے بننے سے مفتی محمد سعید کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا جو اُس نے اپنی بیٹی محبوبہ جی کے لئے دیکھا تھا۔محبوبہ مفتی نے تاریخِ کشمیر میں ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا شرف حاصل کیا۔محبوبہ مفتی کی قیادت میں وقت کے حاکموں نے اگر چہ کچھ اچھانہ کیا لیکن دلی کے ایماء پر کشمیر میں GSTلگانے میں کامیاب ہوئے ۔ بھاجپا کی فراہم کردہ بیساکی کے سہارے محبوبہ جی سرکارنے خواب تو بہت دکھائے لیکن ان کی تعبیر کرنا یہ بھول گئی ۔ آج کل سیاست اسی کو کہتے ہیں کہ قسمیں وعدے کئے جائیں لیکن انہیں پورا کرنے کوئی ذمہ داری نہیں اور پھر جب چھ سال تک پوچھنے والا بھی نہیں تو کوئی کیوں عوام کی بھلائی کا سوچے یا کرے ۔اللہ خیر کریں ۔
۲۰۱۸ء کے وسط میں کشمیر میں ایک سیاسی عجوبہ رنماہوا کہ محبوبہ مفتی کا تختہ بی جے پی نے پلٹا کر یہاں گورنر راج نافذ کیا ۔ اس سے قبل ماہ جون تک مخلوط حکومت کی ناک کے نیچے نہ جانے کتنے بے گناہوں کا قتل ہوااور کتنی غارت گریاں اورخونریزیاں ہوئیں ۔ بہت سے مائیں اپنے بیٹوں سے ،بہنیں اپنے بھائیوں سے ،بیویاں اپنے شوہروں سے اور بچے اپنے والد ین سے بچھڑ کریتیم ہوئے ۔ یہ سلسلہ یہاں برسوں سے چلاآرہا ہے۔لیکن اس سال تعداد  انسانی لاشوں اور جنازوں کی تعداد سال ۲۰۱۷ سے زیادہ تھی۔19جون تک آتے آتے حکومت کی طرف سے خون خرابے کے بغیر کسی صلح سمجھوتے کافارمولہ سامنے نہ آیا اور بالآخر اسی روز
محبوبہ جی کی حکومت کی مرکز میں برسراقتدار بھاجپا نے الل ٹپ حمایت واپس لے کر اسے برخواست کر دیا ،ریاست میں پہلے این این ووہرا نے اور بعد میں ستیہ پال ملک نے چھ ماہ تک گورنری راج کا نظم ونسق سنبھالا،اب جاتے جاتے ۲۰۱۸ء نے ریاست کو صدارتی راج دیا۔ گورنر صاحب نے محبوبہ جی کی حکومت سازی کی کوششوں کو اس وقت دھچکا دیا جب انہوں نے پی ڈی پی ، این سی اور کانگریس کی ملی جلی سرکار کے امکان کو نکارتے ہوئے بیک جنبش قلم قانون ساز اسمبلی کوتحلیل کرڈالا۔ اُدھر خون ریز جھڑپین سال بھر چلتی رہیں۔جن میں عسکریت پسندوں کے علاوہ فورسز ، پولیس ہل کاروں اور شہری ہلاکتوں کا گراف بڑھتارہا ۔ سر زمین کشمیر کا خدا ہی حافظ ہے کیونکہ  یہاںکوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب دل کی چیر پھاڑکرنے والی خبریں نہ بنتی ہوں ۔روز روز کی ہڑتالیں ،سڑکوں پر احتجاج ی جلسے جلوس ، رات رات گولیوں کی آوازیں،چاروںطرف لاشوں کے ڈھیر وغیرہ آخر کب تک ؟ شاید اب یہاں انسان کے خون کی کوئی قیمت نہیں رہی ؟۔جو ہر روز یہاںکسی نہ کسی کی آنکھ نم نظر آتی رہیں۔
سال ۸ا۲۰ء میں ماہ جنوری اپنے ساتھ سرد ہوائیں اور شدید برف باری کا زخم لے کے آیا مگر کبھی 35A کو عدالت میںچلینج کرنے کا مسئلہ اور کبھی 370کو ہٹانے کی عدالتی کارروائی سے پورا کشمیر ناراضگی، احتجاجوں، ہڑتالوں اور بیان بازیوں کی فضا گرماتارہا۔ فروری کے مہینے نے ساری دنیا کو ا س وقت رُلایا جب یہ خلاصہ ہوا کہ۹؍سالہ خانہ بدوش بکروال لڑکی آصفہ کی رسنا کھٹوعہ کے مندر میں عصمت ریزی اور جنگل میں ہلاکت کا جرم عظیم بے نقاب ہو ا۔ اس معصوم بچی کی داستان ِ الم نے ریاست میں ہندو فرقہ پرستی کے عزائم کو بھی درشایا۔ اس معاملہ پر ریاست بھر میں عوامی ردعمل کے تیکھے تیور دیکھتے ہوئے حکومت نے حرکت میں آکر ملوثین کو گرفتار کر کے ان کے خلاف باضابطہ مقدمہ کیا جو اس وقت عدالت کے زیر سماعت ہے مگر ملزمان کو ابھی تک سزائیں نہ ملیں، جب کہ ۲۰۱۸ء اب ختم ہونے والا ہے۔اس کے برعکس قصور پاکستان میں آٹھ سالہ معصومہ زینب کے مجرم عمران علی کو عدالتی فیصلے کے تحت کچھ ہی ماہ بعد پھانسی کی سزا دی گئی۔آصفہ المیے نے فرقہ پرست قوتوں کی حیواینت اور جنونیت کو پھر ایک بار اُجاگر کیا لیکن ایوان ِ عدل کا امتحان بھی اسی کے ساتھ ہوا۔ایک طرف سے سرکار’’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘‘جیسااچھا نعرہ دے رہی ہے ، دوسری طرف غریب لڑکیوں کوزندہ زمین میں گاڑ نے والوں کا بال بھی بیکا نہیں کر تی ہے ۔ یہ ایک تضاد نہیں تو اور کیا ہے ؟ رواں سال نے یہ تلخ حقیقت بھی منظر عام پر لائی کہ سرکار خواتین کو مضبوط بنانے یا ایمپاور کر نے کے لئے مختلف اسکیموں کا اعلانات کر تی ہے لیکن بنت حوا کے ساتھ ظلم وجبر میں کوئی کمی نہیں آرہی بلکہ آئے دن ملک میں بیٹیوں کی خودکشیاں ،عصمت ریزیاں اور ان کی حالت ِ زار کے تئیں اربا ِ ب ِاقتدار کا مجرمانہ برتاؤبڑھتا ہی جارہاہے۔سال کے شروع میں تعلیم یافتہ بے روزگار اس اُمید میں تھے کہ شاید اس بار ان کی بے کاری ختم ہوگی لیکن سرکارنے ان کے لئے کچھ بھی نہ کیا ۔ وزیراعظم مودی نے انہیں کھلے عام یہ صلاح دی کہ چائے پکوڑے بیچنا تمہارے لئے صیحح بزنس ہے۔ بے روزگار اس کے سوا اُن سے اوراُمید بھی کیاکرسکتے ہیں ؟ کشمیر  میںآنگن و اڑی ورکروں نے جنوری سے لگاتار پانچ مہینے ہڑتال پر رہ کر دفتروں سے زیادہ سڑکوں پر ہی ڈیوٹی دی ، مطالبہ یہ تھا کہ خدا کے واسطے ہماری تنخواہوں میں اضافہ کیجئے لیکن سننے والا کون تھا ؟مہینوں ان کی ہڑتال شہ سرخیوں میں چلتی رہی مگر بے سود ۔ غریب سرکار نے تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا مگر ایم ایل اے اور ایم ایل سی حضرات کا۔ان کی تنخواہیں ڈبل کی گئیں مگر بے چارے ہڑتالی آنگن واڑی ورکروں کے مشاہرے میںدوسو سے پانچ سو کااضافہ کرکے خاموش کیا گیا۔SSA ٹیچروںکے لئے یہ سال ایک طرف تو اچھا ہی رہا اور دوسری طرف بے چاروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔اچھا اس لحاظ سے کہ اُس وقت کے وزیر تعلیم نعیم اختر کو محکمہ تعلیم سے ہٹایا گیا ،ورنہ پتہ نہیںاس بار ان کے امتحان میں گائے کے بدلے بیل پر مضمون لکھنے کی نوبت بھی آسکتی تھی اور ریزلٹ کا پھر کچھ بھروسہ نہ تھا۔ سال رواں مشکل اس لحاظ سے رہا کہ اس بار ان ٹیچروں نے عید کی نماز بھی ہڑتال میں ہی ادا کی۔چھٹیوں کو ملا کر آگر دیکھا جائے تو یہ انداز ہوتا ہے کہ ان بے چاروں نے سال کا زیادہ تر وقت اسکولوں کے بجائے سڑکوں میں ہڑتالوں میں گذارا، کبھی تنخواہوں ،کبھی امتحانوں میں اور کبھی 7th پے کمشنکی یاد میں۔ ان پر پولیس نے بھی لاٹھیاں برسانے میں بھی کوئی کمی نہیں کی۔ایک زمانہ تھا جب استاد کو قوم کا معمار سمجھا جاتا تھا لیکن یہاں کے حاکموں کو یہ معمار بلکہ خار زار نظرآتے ہیں،اس لئے یہ چاہے اسکول میں اُگیں یا سڑک پر ، اس سے حاکموںکو کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ان کے اپنے بچے پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ یہ سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم غریب بچوں اور بچیوں کی کیوں کریں؟ اس سال بھی ڈیلی ویجرس سوچ رہے تھے کہ اب سڑکوں پر مظاہروں کرو انے کے بجائے ہمیں اپنے اپنے محکموں میں مستقل کیا جائے گا لیکن ۲۰۱۸ء نے ان کے ساتھ وہی مذاق کیا جو ان کی مقدر بناہوا ہے ۔ ابھی تک ۶۰ ہزار یومیہ مزدور سرکاری فائلوں کی گرد میں اَٹے ہوئے ہیں۔ اس برس بجلی کا حال تو وہی ہے وج کئی دہائیوں سے چلا آرہاہے ۔ دربار مو کے ساتھ ہی  بجلی بھی کشمیر کو چھوڑ کر سرکاری درباروں اور دوسری ریاستوں کو روشن کرتی ہے ۔سڑکیں اس امید میں تھیں کہ حاکم لوگ شاید اس بار ان کی آبرو بچانے کی کوشش کریں گے لیکن حاکموں نے اُلٹا یہ کیا کہ جہاں پر خدانخواستہ میگڈم لگا تھا،وہاں بھی تڑوا گئے اور زیرزمین تارین وغیرہ بچھانے لگے۔راشن گھاٹ ماشااللہ سرکا رنے کونے کونے میں رکھ دئے ہیں لیکن افسوس کہ ان میںراشن لانا بھول گئے ۔
جہاں تک سرکاری محکموں کا تعلق ہے، ریاست جموں کشمیر میں دو محکموں کا قابل ذکر کارنامے ہیں۔ ان میں جے کے ایس ایس بی JKSSBکے چیرمین سامردیپ سراور آئے جی IGٹریفک بسنت رتھ رواں سال میںقابل ذکر رہے جنہوں نے اپنی خدمات کے ایسے نشانات چھوڑے کہ کوئی بھی انہیں فراموش نہیں کر سکتا ۔ سامردیپ سر نے پہلی بار مختلف محکموں میں خالی پڑی اسامیوں کے بھرتیوں میں اتنی تیزی لائی اور صاف وشفاف امتحانوں کا انعقاد کیا لیکن ان کی اس بے باک شخصت حاکم کو کہاں بھاتی؟ لہٰذا بہت کم مدت میں اُن کو تبادلہ کا سامنا کر دیا گیا۔ بسنت رتھ نے جموںو کشمیر میں ٹریفک نظام کو سدھارنے کا بیڑہ اٹھایا تو اُن کا بھی ٹرانسفر کیا گیا تاکہ ریاست کی کوئی کل سیدھی نہ رہے ۔ یہ رواں سال کے دواہم ایڈمنسٹر ٹیو’’ کارنامے‘‘ بنے۔
المختصر سال کا کلینڈر بدلنے والا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اب کی بار ہمارا حال بھی بدلے گا یا نہیں ؟  دعا ہے سال ۲۰۱۹ء میں سب کچھ اچھا ہو مگر رخصت ہونے والے سال کی تلخ یادیں اپنے گہرے زخم اور صدمے دل کے گھاؤ بن کر ہماری روحوں کو ڈس رہی ہیں اور انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ مخلصانہ دعایہ ہے کہ اس سال جو خامیاں ، غلطیاں اور کوتاہیاں ہم سے انفرادی یا اجتماعی طور ہوئیں،اگلے سال ان کا اعاہ نہ ہو اور یہ سال ہمارے لئے فائدہ مند اور خوش آئند ثابت ہو   ؎
پھر نیاسال،نئی صبح ،نئی امیدیں 
اے خدا!خیر کی خبروں کے اُجالے رکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون نمبر   7006148112