۔2023میں بھی سڑک رابطہ نہ طبی سہولیات میسر،تعلیمی شعبہ کا حال بھی بے حال رام بن ضلع کی پسماندہ ترین پنچایت احدواہ کی8ہزار سے زائد آبادی کا کوئی والی وارث نہیں،بے بس لوگوں کومسیحا کی تلاش

 

محمد تسکین

بانہال //ضلع صدرمقام رام بن کے اوپر دور پہاڑی پر واقع احدواہ پنچایت کے ہزاروں لوگ انتظامی بد نظمی اور تعمیر وترقی کے میدان میں مکمل طور سے نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے دہائیوں سے کسمپرسی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ ضلع رام بن کی اس پسماندہ ترین پنچایت کو سڑک رابطے سے جوڑنے کیلئے محکمہ پی ایم جی ایس وائی کی طرف سے کروڑوں روپے کی لاگت سے قومی شاہراہ پرماروگ کے مقام سے تعمیر کی جارہی سڑک دو دہائیوں سے مکمل ہی نہیں کی گئی ہے جبکہ علاقے میں قائم سرکاری سکولوں میں اساتذہ اور سکول عمارتوں کی شدید قلت کی وجہ سے نظام تعلیم بھی متاثر ہے۔ حیرت کی بات یہ کہ سڑک رابطہ سے محروم احدوا ہ کے دیہات میں 8ہزار سے زائد لوگوں کیلئے طبی سہولیات کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔

وسیع آبادی بالکل منقطع
تحصیل و بلاک رام بن کی احدواہ پنچایت کے لوگوں اور نائب سرپنچ جتندر سنگھ ، پنچ رنبیر سنگھ اور پنچ بشیر احمد نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنچایت احدواہ کی بنیاد سینکڑوں سال پہلے احد سنگھ نامی ایک شخص نے رکھی ہے اور ملک کی آزادی کے بعد بھی پوگل پرستان کے لوگ احدواہ کے پہاڑی راستوں سے ہی پیدل رام بن پہنچتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ضلع رام بن کے شہر و گام میں لوگوں کو آرام پہنچانے کیلئے تعمیر وترقی کے کام انجام دیئے گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے ضلع رام بن میں اب تک کی پسماندہ ترین پنچایت احدواہ میں لوگوں کی دشوار زندگی مہاراجوں کے زمانے کے پگڈنڈی اور کچے راستواں کے سہارے ہی چل رہی ہے اور کھڑی اور ڈھلوان پہاڑی سے رسل و رسائل اور روز مرہ کے کام کیلئے رام بن پہنچنے کی خاطر پیدل سفر کرنا عام لوگوں، سکولی بچوں اور مریضوں کیلئے ایک بڑی سزا بنا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ پی ایم جی ایس وائی کی طرف سے احدواہ سمیت بیٹری چشمہ ، بلیہوت اور گام پنچایتوں کو جوڑنے کیلئے2003 میں 24 کلومیٹر لمبی سڑک کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا لیکن بیس سال کا طویل عرصہ بیت جانے کے باوجود اس سڑک کو مکمل کرنے کے بجائے انیسویں کلومیٹر پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے آج بھی احدواہ کے دربوٹ ، بیبا ، بھاٹا ، بتیا ، شوراہ ، گر شلی اور تھار مولہ کے دیہات سڑک رابطے کے بغیر دشوار گزار زندگی جی رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ علاقے کے لوگوں کی دشوار زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ ڈپٹی کمشنر رام بن مسرت الاسلام نے احدواہ کو جوڑنے کیلئے رام بن کے نیرہ سے سات کلومیٹر لمبی ایک اور سڑک تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا لیکن پی ڈبلیو ڈی رام بن کی طرف سے ایک ہی کلومیٹر سڑک کی تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ بنائی گئی اور اسے مکمل بھی کیا گیا لیکن ابھی تک چھ کلومیٹر دور احدواہ کی پنچایت کو جوڑنے کا مزید کام ترک ہی کر دیا گیا ہے۔

طبی سہولیات کا فقدان
لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس پنچایت میں شرح اموات زیادہ ہے کیونکہ اس پہاڑی علاقے کے لوگوں کیلئے کسی بھی قسم کی کوئی طبی سہولت یا ڈسپنسری وغیرہ دستیاب ہی نہیں ہے اور سڑک نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو بروقت علاج کیلئے رام بن ہسپتال پہنچناکار دارد والا معاملہ بن جاتا ہے اور بیماروں کو پیٹھ پیچھے یا چارپائیوں پر اٹھا کر ہسپتال پہنچانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال منتقلی کا مرحلہ درد زہ میں مبتلا خواتین اور دیگر ایمرجنسی مریضوں کیلئے زندگی اور موت کا معاملہ بن جاتا ہے اور ماضی میں بروقت علاج نہ ملنے سے کئی افراد فوت ہو چکے ہیں۔

تعلیم کا حال بے حال
انہوں نے کہا کہ تعلیمی شعبے میں بھی یہ علاقہ نظر انداز ہے اور غریب بچوں سے بھرے پڑے سرکاری سکولوں کی حالت قابل رحم ہے۔ انہوں نے کہا کہ احدواہ پنچایت میں قائم ہائی سکول سٹاف اور عمارت کی کمی سے دوچار ہے اور 160 بچوں کیلئے چار اساتذہ ہی تعینات ہیں جبکہ ہائی سکول کی دس کلاسوں کو پرائمری سکول کے دو کمروں سے چلایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی سکول اور مڈل سکول احدواہ کی عمارتوں کی تعمیر 2011 میں شروع کی گئی لیکن ابھی یہ کام چھتوں کی سطح تک ہی محدود رہ گیا ہے۔یہی حال 2008 سے زیر تعمیر پنچایت گھر کا ہے۔
غریب کا کوئی والی وارث نہیں

انہوں نے کہا کہ پنچایت احدواہ میں معاشرے کے پسماندہ طبقات کے علاوہ گوجر بکروال اور درجہ فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور غربت اور افلاس کی دلدل میں دبی اس پنچایت کے لوگوں کی کوئی سیاسی رسائی نہیں ہے ، یہی وجہ سے ہے کہ مختلف سرکاری محکمے اور ملازمین یہاں کے لوگوں کے درد کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔

حکام کہتے ہیں
احدواہ پنچایت میں عوام کو درپیش مسائل کے بارے میں جب ڈپٹی کمشنر رام بن مسرت الاسلام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ علاقہ ابھی تک سڑک رابطے سے جوڑا ہی نہیں گیا ہے تاہم احدواہ پنچایت کو سڑک سے جوڑنے کیلئے کئی تجاویز زیر غور ہیں۔ انہوںنے کہا کہ پنچایت احدواہ ضلع ہیڈکوارٹر رام بن سے 11 کلومیٹر کے فاصلے پر کھڑی اور ڈھلان پہاڑیوں پر واقع ہے اور احدواہ کے لوگ لنک روڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضلع انتظامیہ رام بن نے ماضی میں محکمہ پی ڈبلیو ڈی کے ذریعے شاہراہ پر واقع رام بن کے کیفٹیریا موڑ سے احدواہ کو سڑک سے جوڑنے کی کوشش کی لیکن اس مقام پر پسیوں اور اوپر کھڑی پہاڑی کی وجہ سے ٹیک آف پوائنٹ کا کام ٹیکنیکل طور ممکن نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ نیرہ ۔ کمیت رابطہ سڑک کے چوتھے کلومیٹر سے ایک اور لنک روڈ کو نبارڈ کے تحت ہاتھ میں لیا گیا اور اس سال دسمبر سے پہلے ایک کلومیٹر کا حصہ ہر لحاظ سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لنک روڈ کے تحت آنے والی اراضی کے مالکان معاوضہ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں زمینداروں کے کچھ وفود ان سے ملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیرہ سڑک سے پنچایت احدواہ کیلئے جانے والی سڑک کے پہلے چار کلومیٹروں کا سروے بھی کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ نبارڈ کے ذریعے بنائے جانے والی سڑکوں کی زد میں آنے والی اراضی کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتا ہے اور اب ہم پنچایتی نمائندوں اور گائوں والوں کو سڑک کی تعمیر میں شامل کر رہے ہیں تاکہ وہ زمین کے مالکان سے درخواست کریں کہ وہ سڑک رابطے سے ابھی تک منقطع احدواہ پنچایت کے کچھ وارڈوں کی ایک ہزار سے زیادہ آبادی کو جوڑنے والی سڑک کیلئے زمین عطیہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ چوتھے کلومیٹر سے آگے کے کچھ زمیندار بغیر معاوضے کے زمین دینے کو تیار ہی نہیں ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہراہ سے ماروگ گاوں سے ایک اور لنک روڈ جسے ماروگ۔ بلیہوت۔ احدواہ کے نام سے جانا جاتا ہے ،اسکوPMGSY نے دو دہائی پہلے شروع کیا تھا اسے انیس کلومیٹر کے حصے تک مکمل کیا گیا ہے اور رقوم تخمینہ لاگت سے آگے تجاوزکرنے کی وجہ سے اس کا کام آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ اب ا یگزیکٹیوانجینئر پی ایم جی ایس وائی ڈویژن رام بن کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس روڈ کا کام شروع کرکے اسے اپر احدواہ تک لیجائیں تاکہ احدواہ کی عوام کو مزید مشکلات سے نجات مل سکے۔پنچایت احدواہ میں کئی سکول عمارتوں کی ابتر صورتحال کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی سی رام بن نے بتایا کہ ضلع رام بن میں140ایسی سکول عمارتوں کی فہرست محکمہ تعلیم کے حکام کو بھیجی گئی ہے جنہیں فوری مرمت کی ضرورت ہے اور اس فہرست احدواہ پنچایت میں قائم ہائی سکول عمارت کا معاملہ بھی شامل ہے۔