یا خلائی تحقیقی نقشہ | حساس ترین تھری ڈی اسکینر

ویب ڈیسک
ماہرین فلکیات خلا میں تحقیقات کرنے کے لیے نت نئے تقشے تیار کررہے ہیں۔اس ضمن میں پورپین اسپیس ایجنسی( ای ایس اے) نے تقریبا ًبیس لاکھ ستاروں کے جائزے پر مبنی ڈیٹا حاصل کیا ہے۔ یہ گائیا خلائی مشن کا تیسرا ڈیٹا سیٹ ہے، جس کا دنیا بھر کے ماہرین فلکیات بے صبری سے انتظار تھا۔ اس ڈیٹا نے کہکشاؤں کے بارے میں سمجھ بوجھ میں انقلاب برپا کیا ہے۔گائیا نے نہ صرف زمینی فضا سے پردہ اُٹھا یا ہے بلکہ اس نے کا ئنات میں موجود دیگر 2.9 ملین کہکشاؤں اور تقریباً بیس لاکھ کو آزار (کہکشاؤں کے مرکز میں بلیک ہولز کے قریب تیزی سے گھومتے اور انتہائی روشن ستاروں کے جھرمٹ ) کا پتا چلایا ہے۔ اس جہاز کو زمین سے 1.5 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک مدار میں رکھا گیا ہے۔ گائیا خلائی جہاز کو 2013 ء میں لانچ کیا گیا تھا اور یہ تب سے کائناتی وسعتوں کا ڈیٹا جمع کرنے میں مصروف ہے۔
پیرس آبزرویٹری کے ماہر فلکیات میشا ہیووڈ کا کہنا ہے کہ ’’،گائیا آسمان کو اسکین کرتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے، اسے محفوظ کر لیتا ہے‘‘۔ لیکن اس کے ذریعے اب بھی زمینی ملکی وے کے تقریباً اُن ایک فیصد ستاروں کا پتا لگایا جاسکتا ہے، جو کہ ایک لاکھ نوری سال کی دوری پر واقع ہیں۔ یہ تحقیقی مشن دو دور بینوں کے ساتھ ساتھ ایک بلین پکسل والے کیمرے سے لیس ہے۔ اس کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ، اس کے ذریعے ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک انسانی بالوں کے قطر تک کا انداز لگایا جا سکتا ہے اور بہت اچھی کوالٹی کی تصاویر کھینچی جا سکتی ہیں۔ اس خلائی جہاز میں کئی دوسرے آلات بھی ہیں، جن سے نہ صرف ستاروں کے نقشے بلکہ ان کی حرکات، کیمیائی ساخت اور عمروں کی پیمائش بھی کی جاتی ہے۔ اس سے ستاروں کے درمیان پائے جانے والے فرق کا بھی پتا چلتا ہے۔گائیا مشن کے رکن الیاندرا ریکیو بلانکو کے مطابق ہماری کہکشاں ستاروں کا ایک خوبصورت پگھلنے والا برتن ہے اور یہ تنوع انتہائی اہم ہے ،کیوں کہ یہ ہمیں ہماری کہکشاں کی تشکیل کے بارے میں بتاتا ہے۔ یہ بہت واضح ہے کہ ہمارا سورج اور ہم سب ایک لمحہ بہ لمحہ بدلتے نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نظام ستاروں اور مختلف ماخذ کی گیسوں کے جمع ہونے کی بدولت تشکیل پایا ہے۔
نئے ڈیٹا سے ماہرین ستاروی زلزلوں‘‘ کا پتا چلانے میں کامیاب رہے، جن کی بہت زیادہ وائبریشن یا ارتعاش سے دور دراز کے ستاروں کی بھی ہئیت بدل جاتی ہے۔ ای ایس اے کے سائنسدانوں کے لیے یہ سب سے حیران کن نئی دریافت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ، گائیا جہاز کو ستاروی زلزلے ناپنے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا لیکن پھر بھی اس نے ہزاروں ستاروں پر اس کا پتا لگایا ہے۔ گائیا کے رکن کونی ایرٹس کے مطابق گائیا نے بڑے ستاروں کی’’ ایسٹرو سیزمولوجی‘‘ کے لیے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔
ماہرین فلکیا ت کو اُمید ہے کہ اس کے ذریعے مستقبل میں مزید ڈیٹا حاصل کرسکیں گے۔
جدت سے بھر پور اس دور میں ماہرین ایسی چیزیں تیار کررہے ہیں جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے۔ دنیا کا حساس ترین تھری ڈی اسکینر تیار کیا گیا ہے۔ اسے ’’ریو وپوائنٹ ‘‘ تھری ڈی منی کا نام دیا گیا ہے جو 0.02 ملی میٹر درستی سے باریک ترین اشیا کی درست ترین اسکیننگ کرکے اسے اسکرین پر تھری ڈی ماڈل میں پیش کرتا ہے۔ اس طرح صرف 0.05 ملی میٹر دوری سے بھی یہ اپنا کام کرتا رہتا ہے اور دس فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے برق رفتاری سے کسی بھی ٹھوس شے کو اسکین کرسکتا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ، اس کا وزن صرف 160 گرام ہے، اسی لیے اسے ہاتھ میں لینا اور گھمانا بہت ہی آسان ہے۔ اس اہم ٹیکنالوجی کی افادیت وہ ماہرین بخوبی جان سکتے ہیں جو تھری ڈی ماڈلنگ جیسا مشکل کام کرتے ہیں اور انہیں کوئی ماڈل تیار کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریورس انجینیئرنگ کے لئے بھی تھری ڈی اسکیننگ بہت ضروری ہوتی ہے۔ دوسری جانب دانتوں کے ڈیزائن اور طبی آلات اور پیوند کے لئے بھی تھری ڈی ماڈلنگ لازمی ہوتی ہے۔یہاں تک کہ صرف منٹوں میں ایک پوری تھری ڈی دنیا بنائی جاسکتی ہے اور ماڈلنگ کا عمل دس گنا تیز بنایا جاسکتا ہے۔ اسکیننگ کے بعد ایپ میں موجود کوالٹی کنٹرول فیچر اس کی تمام خامیوں کو دور کرتا رہتا ہے۔ اسکیننگ کے لیے نیلی لائٹ کا استعمال کیا جاتا ہے جو کسی طرح بھی نقصان نہیں پہنچاتی۔ اسکیننگ کے لیے دستی اسٹیبلائزر غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے جو کسی بھی طرح دھندلاہٹ کی وجہ نہیں بنتا۔ اسے آسانی سے کھولا اور بند کیا جاسکتا ہے، پھر اس پر مزید کام کرنے لئے ریوو اسٹوڈیو ایک سافٹ ویئر کی صورت میں پیش کیا ہے، جس میں موجود ٹولز اسکیننگ کے عمل کی مزید ایڈیٹنگ کرسکتے ہیں۔ چند میں اسے دنیا بھر میں فروخت کے لیے پیش کردیا جائے گا۔ فی الحال اس کی قیمت 436 ڈالر مقرر کی گئی ہے۔