“یادوں کا مجموعہ “ شخصیت کے آئینے میں

روبینہ میر

جوہر صاحب  ہر موضوع پر گفتگو کرتے تھے ان  سے  جب بھی سیاسی ،سماجی و ادبی گفتگو ہوتی تو میں نے یہی پایا کہ موصوف ایک اچھے ادیب ،اچھے ناول نگار ،اچھے افسانہ نگار ہونے سے پہلے ایک اچھے انسان ہیں،اخلاق اور اعلی قدروں کے پاسدار ،انسان دوستی میں یقین رکھنے والے اوراحباب پسند شخص ہیں۔

رسول پاک ﷺ نے بہترین انسان کے بارے میں فرمایا کہ تم میں سے سب سے بہترین انسان وہ ہے۔جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتا ئواور حسن ِ سلوک کرتا ہے۔حضور ﷺ نے بہترین انسان بننے کا معیار  یہ مقرر کیا ہے کہ اس کی ذات دوسروں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو،جو دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو۔اسلام میں  ایک بہترین انسان کے لئے  جن صفات کا ہونا ضروری ہے اُن میں سے ایک صفت خدمتِ خلق بھی ہے۔خدمتِ خلق میں صرف مالی امدادو اعانت ہی شامل نہیںبلکہ کسی کی رہنمائی کرنا،کسی کو تعلیم دینا،مفید مشورہ دینا،کسی کی علمی سرپرستی کرنا جیسے امور بھی خدمتِ خلق میں آتے ہیں۔خوش اخلاقی ،حسن ِ سلوک ،شفقت و محبت ،عفو و درگزر  بھی بہترین انسان کی وہ صفات ہیں جن کی بدولت وہ دنیا میں عزت و احترام  اور آخرت میں اللہ کے حضور اجرو ثواب پاتا ہے۔جوہر صاحب ان تمام صِفات سے مالا مال تھے۔اللہ پاک انھیں ان صِفات کا بے پناہ اجر عطا کرے۔آمین

ایک اچھا انسان صرف اپنے افرادِ خانہ  کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔شاید ایسے ہی انسانوں کے لئے شاعر نے کہا ہے۔؎

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

پھر خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

جوہر صاحب سے میری شناسائی کی عمر اگر چہ کچھ زیادہ نہیںلیکن ان کی شخصیت کا کمال یہ تھاکہ بہت کم عرصے میں انہوں نے میرے دل میں جو عزت کا مقام و مرتبہ پایا وہ  برسہا برس سے میرے حلقہ احباب میں کسی کے حصے میں نہ آسکا۔اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ یہ عزت مقام و مرتبہ انہوں نے اپنی ذاتی صِفات کی بنیاد پر پایا۔

جوہر صاحب ایک اچھے قلمکار کی حیثیت سے قومی سطح پر جانے جاتے تھے۔وہ اپنی نگارشات پر اپنے دوست و احباب ،عزیز و اقارب کی طرف سے کی جانے والی تعریف و توصیف کا والہانہ خیر مقدم کرتے تھے۔ جوابا ًاحساسِ تشکر  سے لبریز جملے لکھتے۔ہر کسی کو محبت اور دعاء سے نوازتے۔آج کی زہر آلود فضا میں کسی شخص میں اپنائیت ،الفت ،محبت و احترام ،انسانیت کی طرف داری ،خلوص کاری  مثبت روی جیسے عوامل ہونا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔انسان دوسروں میں وہی چیز بانٹتا ہے۔جو اس کے پاس وافر مقدار میں موجود ہو ۔یہ تمام صِفات شاید جوہر صاحب کو وراثت میں ملی تھیں۔

موصوف نے ان تمام موضوعات پر قلم چلانے کی کوشش کی ہے جن سے انسانیت جھوج رہی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں انسانی فطرت کے ان باریک پہلوں کو بھی موضوع بنایا  ہے جو عام  زندگی میں نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔انھوں نے معا شرے کی تلخ سچائیوں کو  اپنے افسانوں میں کرداروں سے بیان کیالیکن کمال یہ ہے کہ وہ تلخیاں ان کے افسانوی کرداروں  تک ہی محدود تھیں،ان کے مزاج پر ان تلخیوں کا رتی بھر اثر نہ تھا۔میں اپنی کم علمی کی وجہ سے جوہر صاحب کو صرف ایک افسانہ نگار کے طور پر ہی جانتی تھی جبکہ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔یہ راز مجھ پہ تب کھلا جب مجھے ان کی کچھ معیاری غزلوں کے ساتھ خوبصورت وادی لولاب  پہ لکھی نظم” لولاب جہاں ہے” پڑھنے کو ملی۔اس سے پہلے ڈاکٹر علامہ اقبال نے بھی وادیٔ لولاب کی خوبصورتی کو اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔اس نظم کو پڑھنے کے بعد قاری میں وادیٔ لولاب دیکھنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔میں نے جوہر صاحب سے  کہا محترم آپ کی نظم پڑھنے کے بعد وادیٔ لولاب دیکھنے کا شوق اور تجسس بڑھ گیا ہے لیکن خیال رہے کہ کہیں وادی لولاب کو میرے دیکھنے پر آپ کا خیال غلط نہ ثابت ہوکیونکہ آپ کا آبائی وطن ہے اس وجہ سے بھی آپ کو وہاں کی ہر چیز تعریف کے قابل ہی لگتی ہو گی جبکہ اس بارے میں میرا خیال بدل بھی سکتا ہے۔اس پر انہوں نے جوابا کہا کہ آپ ضرور دیکھنے کو آئیں،مجھے امید ہے کہ آپ اس سے زیادہ تعریف کریں گی۔اللہ پاک نے جوہر صاحب کے قلم کو وہ جولانی اور افکارو خیالات کو وہ روانی عطا کی تھی۔کہ انھیں ہر فن مولا کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔جوہر صاحب کو اردو زبان پر پوری دسترس حاصل تھی۔میں نے ان کی تحریرات سے بہت سے الفاظ سیکھے۔فن کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے بھی بے شمار پہلو ہیں۔ان کی شخصیت کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے مکمل نظر آتی ہے۔

نذیر جوہر ایک تحریک کا نام تھا۔ایک انجمن کا نام تھا۔

جوہر صاحب اکثر اپنے افسانے اور دوسری تحریریں لکھنے کے بعد مجھے بھیجتے تھے اور اپنی نگارشات کے متعلق میری رائے کے منتظر رہتے اورمیری رائے کا بہت احترام کرتے تھے۔کبھی کبھی فرصت میسر ہونے پر میں افسانے یا دوسری کسی تحریر پر اپنی کم علمی کے باوجود مفصل تبصرہ کرتی،جسے وہ بہت زیادہ پسند کرتے اور اکثر کہتے تھے کہ آپ بہت ذہین ہیں۔ میرے افسانے  کی تہہ تک جاکر وہ میسیج ڈھونڈ نکالتی ہیںجو میں سماج کو دینا چاہتا ہوں اور بہت خوشی کا اظہار کرتے تھے کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئی بلکہ قیمت وصول ہو گئی۔ جیسے ہر تخلیق کار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تخلیق پر قارئین کی طرف سے دادو تحسن کے ساتھ مثبت رائے آئے،یہی تخلیق کار کی محنت کا ثمر ہوتا ہے، جس کو پاکر وہ بہت خوشی محسوس کرتا ہے کیونکہ اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کی طرف سے ملنے والی دادو تحسین ہی ایک تخلیق کار کو مزید لکھنے کی تحریک بخشتی ہے۔موصوف مجھے ادبی صلاح کار مانتے تھے میں نے انھیں  چند افسانوں کے عنوان تبدیل کرنے کی رائے دی جو افسانے کے اندر ہی موجود تھے۔موصوف نے رائے کا احترام کرتے وہ عنوان تبدیل کئے۔اب ان کا دو افسانے لکھنے کا ارادہ تھا۔ایک  “بہو رانی ” کے عنوان سے اور ایک  “مسجد والے بابا”۔ بہت خوبصورت پس منظر میں وہ یہ دونوں افسانے لکھنا چاہتے تھے۔اس کے علاوہ ایک ناول لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔اللہ جانے شروع کیا تھا یا نہیں……. مجھے لگتا ہے کہ جوہر صاحب کی اچانک اور بے وقت رحلت کے سبب ان کا بہت سارا ادبی سرمایہ  کتابی شکل اختیار کرنے سے رہ گیا ہو گا۔مجھے امید ہے کہ جوہر صاحب کے وارثین ان  تمام تحریرات کو یکجا کر کے کتابی شکل دے کر اس ادبی سرمایہ کو محفوظ کر لینگے۔

علاوہ ازیں وہ اپنی ماں بولی یعنی کشمیری  ادب میں بھی اپنا حصہ ڈالنے کے خواہشمند تھے۔بہرحال بیشمار یادیں ہیں…..باتیں ہیں….. سب کا ذکر ممکن نہیں،بس اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ جوہر صاحب کی بے وقت موت سے ادبی دنیا  کو جو نقصان ہوا اس کی بھرپائی ممکن نہیں۔آخر پر جوہر صاحب کو بشیر دادا صاحب کے اس شعر کے ساتھ خراجِ عقیدت پیش کر کے اس دعا کے ساتھ الوداع کہتی ہوں۔ اللہ پاک آپ کو کروٹ کروٹ جنت عطا کرے۔آمین

باغِ ہستی میں گل ہیں ہزاروں مگر

کوئی تم سا نہیں، جو تمہاری جگہ لے سکے

���

راجوری، جموں