ہندوستان کے مدرسوں کا عصری منظرنامہ

ڈاکٹر تو قیر راہی

مدارس،خانقاہیں اور اوقاف قوم و ملت کے گراں قدر اثاثے ہیں جنہیں زرخیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی وابستگی مین اسٹریم سے ہو سکے۔ ان دنوں ریاستی حکومتوں کا جو سروے مدارس کے تعلق سے ہو رہا ہے، اس میں مدارس کے ذمے داروں کو تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کے سروے ہوئے ہیں، خصوصاً سچر کمیٹی کا سروے، جس کی تفصیلی رپورٹ کتابی شکل میں موجود ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مدارس میں صرف چار فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اب تک زیادہ تر سروے اور رپورٹیں نشستند، گفتند اور برخواستتند کے مصداق ہیں۔ ان کا نفاذ اور عملی اقدامات صفر کے برابر ہیں۔ ابھی جو یوپی حکومت کا سروے چل رہا ہے، کافی معنی خیز ہے۔ اس سروے کی رپورٹ اکتوبر میں پیش ہونی ہے۔ مزید برآں اوقاف کے سروے کا حکم بھی جاری ہو چکا ہے، غالباً یہ بھی اکتوبر میں مکمل ہونا طے پایا ہے۔ اسی طرح کا سروے اتراکھند میں بھی ہونا ہے۔معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ بورڈر علاقے میں قائم مدارس کا بھی سروے دیر سویر ہونے جا رہا ہے۔ آسام کے مدرسے کی خبر میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔
موجودہ حالات کی روشنی میں اہل مدارس کی ذمہ داری ہے کہ مدارس کے کاغذات، مثلاً زمین کی رجسٹری، اساتذہ و طلبا کی تفصیلات، الحاق شدہ بورڈ کی منظوری، آمدنی و خرچ کی جانکاری وغیرہ مہیا رکھیں تاکہ سروے ٹیم کے سوالات کا جواب دینا آسان ہو جائے۔
مدارس کا کردار ماضی میں درخشاں رہا ہے۔ جنگ آزادی میں برادران وطن کے شانہ بشانہ علمائے ہند نے ایک کلیدی رول ادا کیا ہے، اس تعلق سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب انگریزی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی تو اس نے نہ صرف یہاں کی تہذیب و ثقافت، زبان و لسان پر حملہ کیا بلکہ تعلیمی اداروں پر کو بھی نشانہ بنایا۔ عیسائی مشنریاں بھی بڑے زور و شور کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ ایسے حالات میں، ہندوستانی کلچر، زبان، مذہب اور تعلیمی اداروں پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے۔ مسلمان ہند خصوصاً دانشوران قوم اور علمائے کرام اپنی تہذیب و ثقافت اور تعلیمی اداروں کو تحفظ فراہم کرانے کے لئے بے چین ہوگئے۔ اس پر خطر حالات میں حاجی عابد حسین کی سرپرستی میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد 1866 میں رکھی گئی اور اس مشن کو مولانا قاسم نانتوی نے آگے بڑھایا۔ اس کا نصاب تعلیم ملا نظام الدین فرنگی محلی کے درس نظامیہ اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی کے مرتب نصاب کا سنگم تصور کیا جاتا ہے، جس میں تفسیر،حدیث، فقہ، اصول فقہ، منطق و فلسفہ، عربی زبان و ادب وغیرہ کی تعلیم شامل کی گئی۔ اس نظام تعلیم کا مقصد جہاں عیسائی مشنریوں کی تبلیغ پر قدغن تھا، وہیں برٹش حکومت کے خلاف علما کا ایک گروپ تیار کرنا تھا جو جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکے۔ دارالعلوم کی آمدنی کا ذریعہ عوامی چندہ قرار پایا۔ اس ادارے کی تقلید میں ہندوستان کے طول و عرض کافی مدارس قائم ہوئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
دوسری طرف متجددین کی ایک جماعت تھی جسے مسلمان ہند کی فلاح و بہبودی اور ترقی مغربی اقوام کی زبان اور ان کے علوم و فنون میں نظر آنے لگی، یہاں سر فہرست نام سر سید احمد خاں کا ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی ترقی جدید علوم و فنون کی تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے انہوں نے 1875 میں مدرسۃالعلوم کی بنیاد علی گڑھ میں ڈالی جو آگے چل کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہوا۔ اس ادارے کی تقلید میں بھی بہت سارے تعلیمی ادارے ہندوستان بھر میں قائم ہوئے۔
پھر کالج و یونیورسٹی کے گریجویٹ اور مدارس کے فارغین کے درمیان ایک نمایاں فکری اور علمی خلیج رونما ہوئی اور یہ زندگی کے تمام شعبوں میں نظر آنے لگی۔ اسی خلیج کو دور کرنے اور قدیم صالح و جدید نافع کے درمیان ایک نء راہ تلاش کرنے کے لئے مولانا محمد مونگیری کی سرپرستی میں ندوۃ العلماء کی تاسیس 1898 میں لکھنؤ میں رکھی گئی۔ اس کے نصاب و نظام تعلیم میں حالات کے لحاظ سے مناسب تبدیلی کی گئی، لیکن اصلاح نصاب کے حامی علما بھی اس جانب جرأت مندانہ اقدامات نہیں کر سکے۔ لہٰذا ندوۃ کا نصاب بھی روایتی بن کر رہ گیا۔ ہندوستان میں ندوۃ کے نقش قدم پر بہت سارے مدارس قائم ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
اس کے علاوہ جماعت اہل حدیث، جماعت اسلامی اور اہل سنت و جماعت کے مدارس ہندوستان کی مختلف جگہوں پر قائم ہیں۔ فرقۂ اثنا عشریہ کے بھی متعدد مدارس لکھنؤ میں قائم ہیں۔ بہت سارے مدارس ایسے ہیں جن کا الحاق مختلف ریاستی حکومت کے مدرسہ بورڈ سے ہے، مثلاً مغربی بنگال، بہار، اڑیسہ، آسام، مدھیہ پردیش،اتر پردیش، راجستھان، اتراکھند وغیرہ۔ ان ملحقہ مدارس کے نصاب میں دینی مضامین کے علاوہ عصری علوم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان کی سندوں کو عموماً اسکول و کالج کے مساوی قرار دیا جاتا ہے۔
جہاں تک سوال غیر ملحقہ یا آزاد مدارس کا ہے، ان کا اعداد و شمار مجموعی طور پر نہیں ہے۔ اب تک ملک بھر کے مدارس کی کوئی ڈائریکٹری بھی نہیں ہے۔ آزاد مدارس کا نصاب تعلیم کم و بیش روایتی ہے۔ کچھ مدارس نے اپنے نصاب میں ہندی، انگریزی، حساب، سائنس وغیرہ مضامین کو شامل کیا ہے، لیکن یہ مضامین پرائمری سطح تک محدود ہیں۔ کچھ مدارس میں کمپیوٹر کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ بعض مدارس میں غیر مسلم بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ راقم نے چونکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری جے این یو سے مدارس کے نصاب کے حوالے سے حاصل کی ہے، ساتھ ہی این سی ای آر ٹی کے توسط سے ملک بھر کے مدارس کا سروے بھی کیا ہے اور کتاب بھی تصنیف کی ہے، لہٰذا ہندوستان کے مدارس احقر کا موضوع گفتگو رہا ہے اور اس تعلق سے تلخ تجربات و مشاہدات بھی ہوئے ہیں۔
موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ اہل مدارس اپنے نصاب اور نظام تعلیم کو زرخیز بنانے کے لئے اقدامات کرے۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم و فنون کی تعلیم آج جہاں موجودہ وقت کی ضرورت ہے، وہیں مانگ بھی۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مدارس کے پاس وسائل کی بہت کمی ہے، اس تعلق سے سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، مثلاً مدارس کی تعلیم کی جدید کاری اسکیم، ایریا انٹینسیو اسکیم جو کہ مرکزی حکومت کی ہے۔ اسی طرح این سی پی یو ایل جو کہ حکومت ہند کا ادارہ ہے،اس کے تحت کمپیوٹر کی اسکیم ہے، استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستوں میں مختلف اسکیمیں چلتی رہتی ہیں، ضابطے کے مطابق فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسکول کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے این آئی او ایس سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں مدارس کے فارغین ہر شعبۂ حیات کی رہبری کرتے تھے، اس وقت مدرسے کی تعلیم دینی و دنیاوی میں تقسیم نہیں تھی۔ مدارس کے فارغین جہاں مفتی و قاضی کے عہدے سنبھالتے، وہیں وقت کے حکمراں، فلاسفر، سائنس داں، ماہر علم نجوم، ماہر طب وغیرہ بنتے تھے، مثال کے طور پر امام غزالی، برہان الدین زرنوجی، ابن خلدون، ابن اثیر، فخرالدین رازی ابن اثیر، بو علی سینا، نظام الملک طوسی، عمر خیام، شیخ سعدی، حافظ شیرازی، البیرونی وغیرہ۔ لیکن آج حالات بالکل برعکس ہیں۔ مدارس سے فارغ ہونے کے بعد طلبا یا تو امام و مؤذن کی ملازمت کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، یا پھر باہر ممالک ذریعۂ معاش کے لئے نکلتے ہیں۔ ان کے پاس نہ ہنر ہوتا ہے، اور نہ ہی انگریزی زبان پر عبور۔ بعض فارغین مکتب و مدارس قائم کرتے ہیں اور عوامی چندہ جمع کرنے کے لئے سرگرداں پھرتے ہیں۔ ایسے حالات میں حلال و حرام کی تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔ دین کا کام کرنے کی جگہ معاش کی تلاش درد سر بنتی ہے۔ عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ مدارس کے ذمیداران اپنے نصاب تعلیم میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم و فنون کو بھی شامل کریں۔ پیشہ ورانہ تعلیم کی ان دنوں بڑی اہمیت ہے، اسے نصاب تعلیم میں جگہ دیں، تاکہ طلبا میں خدا اعتمادی کے ساتھ خود اعتمادی پیدا ہو سکے۔
یہ مدارس کے فارغین، اساتذہ اور علما ہی تھے جنہوں نے جدوجہد آزادی اور جنگ آزادی میں برٹش حکومت کے خلاف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ریشمی رومال اور خلافت تحریک کے روح رواں رہے، کالا پانی کی صعوبتیں برداشت کیں اور لاکھوں کی تعداد میں جام شہادت نوش فرمائے۔ آخر ان دنوں مدارس حکومت کے سوالات کے گھیرے میں کیوں؟ بس:
آئین نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
موبائل۔8700164465
[email protected]