’’ہندوستانی خواتین کی اردو سائنسی خدمات‘‘ اردو ادب میں ایک عظیم اضافہ

ڈاکٹر رفیع الدین ناصر

………………………………………..
نام کتاب : ہندوستانی خواتین کی اردو سائنسی خدمات
نام مصنف : عبدالودود انصاری ،رابطہ۔9674895325
صفحات : ۱۱۶ ، قیمت : ۔؍۲۵۰ روپئے
پبلشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی
………………………………………………
اردو ادب میں عبدالودود انصاری کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ کی شخصیت میں کئی قیمتی گوہر چھپے ہوئے ہیں۔ آپ بہترین افسانہ نگار ، خاکہ نگار ، معتبر نقاد ، تبصرہ نگار ، سائنسی محقق، بے مثال سائنسی قلمکار کے ساتھ ساتھ ماہر علم و فن ، زندہ دل انسان ، خوش اخلاق ، خوش مزاج ، ملنسار ، مشفق باپ اور ذمہ دار شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کی پُرکشش شخصیت نے ہزاروں تشنگانِ علم کو سیراب کیا ہے۔ سرکاری اور غیرسرکاری سیکڑوں اعزازیافتہ ، ۳۵؍سے زائد کتابوں کے خالق کے قلم سے نکلی ہوئی اچھوتی کتاب ’’ہندوستانی خواتین کی اردو سائنسی خدمات ‘‘ اردو ادب میں ایک عظیم اضافہ ہے۔
محترمہ ریشماں آراء ’تقریظ‘ میں رقمطراز ہیں کہ : ’’عبدالودود انصاری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقی سفر کے دوران ایک محقق اور موجد کی طرح سائنسی اردو ادب میں نئی نئی صنف کی تحقیق اور جستجو میں سرگرداں رہے ہیں، جس کی وجہ سے نئی نئی دریافت کرنے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔‘‘
بلاشبہ اردو ادب میں مکتوب کے توسط سے سائنسی معلومات فراہم کرنے کا سہرہ عالمی طور پر عبدالودودانصاری کو ہی جاتا ہے۔ ان کی کتابیں آؤ سائنسی خط لکھیں اور آؤ سائنسی خط پڑھیں ، جن کو قومی کونسل نے بہت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اسی طرح مکالموں کے توسط سے انھوں نے سائنسی معلومات کو اپنی کتاب ’باتوں باتوں میں سائنس‘ میں پیش کیا ، جس کو بچے اور بڑے سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ عبدالودود انصاری کے سائنسی یک موضوعی کوئز کتابیں جیسے پرندہ کوئز ، جانور کوئز ، کیڑاکوئز، سانپ کوئز ، فلک کوئز وغیرہ منصہ شہود پر آکر بہت پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ ریاست کے اردو سائنسی قلمکاروں کی خدمات کومنظرعام پر لانے کی شروعات کا سہرہ بھی عبدالودود انصاری کوجاتا ہے۔ ان کی کتاب مغربی بنگال میں اردو کی سائنسی خدمات جو مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے شائع کی ملک کے دیگر سائنسی قلمکاروں کے لئے مشعل راہ ہے۔
نسائی ادب کے مختلف پہلوؤں پر کئی ادباء نے خامہ فرسائی کی ہے ، لیکن خواتین کے سائنسی خدمات پر آج تک کسی نے خامہ فرسائی نہیں کی۔ یہ عبدالودود انصاری کی مفکرانہ ، معلمانہ عظمت ، فلسفانہ شعور اور خواتین کی تئیں اُن کا احترام ہے کہ انھوں نے ملک عزیز کی خواتین کی اردو زبان میں پیش کی گئی خدمات کو منظرعام پر لانے کی بیڑا اٹھایا۔ ہندوستانی خواتین کی اردو سائنسی خدمات کو یکجا کر نا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے تو وسیع مطالعہ کی ضرورت ، پھر اس کے حوالے سے سائنسی قلمکار خواتین کی مکمل تفصیلات یعنی نام ، پتہ ، تعلیمی قابلیت ، اشاعتی پتہ ، موبائل نمبر ، ای میل حاصل کرنا ایک دقت طلب اور صبر آزما مرحلہ ہے۔ ان تفصیلات کو عبدالودود انصاری نے کس طرح حاصل کیا ، یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔ ان تفصیلات کو حاصل کر کے فاضل مصنف نے جس انداز میں کتاب میں پیش کیا وہ بہت قابل ستائش ہے۔ کتاب میں صرف خواتین قلمکاروں کی تفصیلات ہی نہیں ہے بلکہ عبدالودود انصاری نے پورے سائنسی ادب، اس کا ماضی اور حال کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ، گویا دریا کو کوزہ میں بند کرنے کی بہت کامیاب کوشش کی ہے۔جب کتاب ’’ہندوستانی خواتین کی اردو سائنسی خدمات‘‘ کو ہم ہاتھوں میں لیتے ہیں تو اس کاجاذب نظر ٹائٹل ، بیک ٹائٹل پر مصنف کی چنندہ کتابوں کے سرورس، اندرونی نفیس کاغذ پر طباعت کو دیکھ کر کتاب کی عظمت اور مصنف کی محنت کا احساس ہوتا ہے۔ ہم جوں جوں ورق گردانی کرتے ہیں توں توں سائنسی ادب کے تعلق سے نئی نئی معلومات میں اضافہ ہوتاجاتا ہے۔ پوری کتاب ۱۵؍ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب اپنی جگہ مکمل اور معلومات سے بھرپور ہے۔ عبدالودود انصاری نے کتاب کے باب اول میں خواتین کے سائنسی ادب کے تعلق سے تعارفی معلومات فراہم کیں۔ وہ خواتین کی اردو سائنسی خدمات کے اعتراف میں رقمطراز ہیں کہ : ’’خواتین نے سائنس کی تعلیم کو اردو طبقے میں عام کرنے کی جو انتھک کوششیں کیں اور اپنے قلم کے جوہر دکھائے ، وہ نہ صرف مبارکباد کے قابل ہیں بلکہ ان کے یہ کارنامے آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔‘‘ باب دوم میں فاضل مصنف نے سائنسی ادب کی اہمیت اور ضرورت کو بیان کیا۔ کتاب کے توسط سے عبدالودود انصاری نے حتیٰ الامکان معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ باب نمبر تین سائنسی رسالوں کی تاریخ اور موجودہ رسالوں میں سائنس کے تئیں دلچسپی کو بیان کیا جبکہ باب چہارم میں دنیا کی چنندہ ۱۲؍ مسلم خواتین کی سائنسی خدمات پر روشنی ڈالی۔ جنھوں نے بین الاقوامی طور پر اپنے نام روشن کئے۔
ہندوستانی خواتین کا اردو سائنسی خدمات میں بہت بڑا تعاون ہے۔ یہ بات باب پنجم پڑھنے کے بعد معلوم ہوتاہے جس میں فاضل مصنف نے ان تمام سائنسی قلمکار خواتین کی تفصیلات جس میںان کی تصنیفات ، مضامین ، جائے پیدائش ، تعلیم کا مختصر لیکن جامع انداز میں تذکرہ کیا۔ اس سے ایک عام محقق کو تمام تفصیلات آسانی سے مل جاتی ہیں۔ اس میں کل ۴۸؍اور ضمیمہ میں ۲۳ سائنسی قلمکاروں کا تذکرہ ہے۔ خواتین نے اردو سائنسی خدمات صرف کتابوں کے توسط سے ہی نہیں کی بلکہ کئی خواتین سائنسی قلمکار ایسی بھی ہیں جنھوں نے کتاب کی اشاعت پر توجہ نہیں دیں بلکہ وقتاً فوقتاً سائنسی مضامین کو ملک کے مختلف رسائل میں شائع کرتی رہی ہیں۔ ایسی خواتین کی معلومات حاصل کرنا یقینا بہت مشکل ہے لیکن یہ عبدالودود انصاری کا وسیع مطالعہ ہے کہ انھوں نے ملک کی ایسی ۱۳۹؍سائنسی قلمکاروں تک رسائی حاصل کی اور اُس کو باب ششم میں پیش کیا ، جس پر فاضل مصنف کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
سائنسی ادب میں ترجمہ کی بڑی اہمیت ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی خواتین نے ترجمے کے گراں قدر کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اس بات کو ملحوظ رکھ کر قابل مصنف نے الگ سے باب ہفتم قائم کر کے ایسی ۲۱؍خواتین کا تذکرہ کیا جس میں بطورخاص ان خواتین کی ترجمہ کی ہوئی کتابوں کو بھی پیش کیا۔
اردو ادب کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اردو زبان کی خدمت کرنے والی قلمکاروں میں کئی ایسی خواتین موجود ہیں جن کا پس منظر خالصتاً اردو ادب ہے۔ انھوں نے اپنی تعلیم ، لٹریچر یا سوشل سائنس میں مکمل کی لیکن بعد میں مختلف سائنسی عناوین پر بہترین اور معلوماتی خامہ فرسائی کی۔ ایسی خواتین کی معلومات حاصل کرنا ناممکن ہے لیکن عبدالودود انصاری نے اسے ممکن کردیا اور باب ہشتم میں ایسی دس خواتین کا تذکرہ کیا جو سائنس کی نہ ہوتے ہوئے بھی سائنس کی اہمیت کے پیش نظر سائنسی معلومات فراہم کیں۔ اس کے برعکس باب نہم میں اُن خواتین کا تذکرہ ہے جو سائنس کے پس منظر سے ہونے کے باوجود اردو یا انگلش زبان کی خدمات انجام دیں۔ یہاں پر مصنف نے درخواست بھی کی کہ ان چنندہ خواتین کی سائنسی تحریروں کو کوئی اردو قالب میں ڈھال دے تو ایک عظیم کارنامہ ہوگا۔ اسی باب میں عبدالودود انصاری نے اولاً محترمہ فاطمہ زہرہ کی سائنسی خدمات پر علیحدہ سے مضمون تحریر کیا، جس میں وہ رقمطراز ہیں کہ :’’مہاراشٹر کے ایک پسماندہ ضلع بیڑ سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے ایم ایس سی میتھس کے ساتھ ساتھ ایم اے اردو ، ایم ایڈ کی تعلیم حاصل کیں اور نہ صرف سائنس بلکہ اردو اور شعبہ تعلیم میں اپنی گراں قدر خدمات پیش کرکے ملک کو فائدہ پہنچایا۔‘‘ دوم مضمون ڈاکٹر پروین خان پر ہے جو راجستھان ٹونک سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن کے سائنسی مضامین کی تعداد پچاس سے زائد ہے لیکن سائنسی خدمات بہت وسیع ہے۔فاضل مصنف نے پوری کتاب میں صرف معلومات پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ سائنسی ادب میں اضافہ کے تعلق سے خواتین قلمکاروں کے لئے ۲۴؍تجاویز پیش کی۔ اگر ان تجاویز پر عمل کیاجائے تو یقینا اردو سائنسی ادب کو بہت فائدہ ہوگا۔ ان کے بعد کے ابواب تصاویر پر مبنی ہیں جس میں چند خواتین قلمکاروں کی تصاویر، اس کے بعد سائنسی جرائد کے ابتدائی صفحات کے عکس اور اس کے بعد سائنس مصنفہ کے کتابوں کے سرورق کے عکس شامل ہیں۔ باب چہاردہم کتابیات پر مشتمل ہے جو بہت ساری سائنسی کتابوں کی معلومات فراہم کرتا ہے جبکہ باب پانزدہم فاضل مصنف کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ پوری کتاب کے مطالعہ کے بعد میں بہت اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عبدالودود انصاری کی یہ تخلیق ایک عظیم شہکار ہے جو اردو ادب میں نایاب لیکن عظیم اضافہ ہے ۔ کتاب میں شائع رسائل اور مصنفہ کی کچھ تصاویر جو واضح نہیں ہے ان کے ایڈیشن کے لئے اُس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
گویاپوری کتاب ایک انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں ہے اسی لئے سخنے چند میں محترمہ فاطمہ زہرہ تحریر فرماتی ہیں کہ : ’’اس کتاب کا پڑھنا اور گھر میں رہنا ضروری ہے تاکہ مفروضہ غلط ہوجائے کہ خواتین صرف امور خانہ داری کی حد تک ہی محدود ہیں۔‘‘
(رابطہ۔ : 9422211634)
<[email protected]>