ہم خوار ہوۓ تاریک قرآن ہوکر فکر وادراک

رئیس یاسین

قرآن مجید ہماری نجات کا واحد زریعہ ہے،مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کی استطاعت کو حاصل کریں۔اگر ہم یہ سمجھیں کہ بے سوچے سمجھے قرآن کریم پڑھنے سے نجات حاصل ہوتی ہے،تو یہ ہماری خام خیالی ہے۔اس کی مثال یوں سمجھے کہ کسی امتحان میں شریک ہونے کے لئے اس کے تعلق سے جو بھی کتابیں پڑھنی ہوتی ہیں ہم ان کتابوں کو خوب سوچ سمجھ کر پڑھتے ہیں،صرف اس لئے کہ امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل ہو۔ہمارے سامنے اس دنیا میں بھی ایک امتحان درپیش ہے اور آنے والے دنیا میں بھی امتحان دینا ہے،اگر ہم ان دونوں امتحانوں میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے قرآن شریف کو سوچ سمجھ کر پڑھنا ہوگا،کتاب اللہ کے مطالعہ سے ہمیں دونوں جہانوں میں کامیابی اور کامرانی ملے گی اور ہماری نجات کا بھی باعث بنے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا لیکن تمہارے لیے دو واعظ چھوڑ جاؤں گا،جو ہمیشہ تمہیں نصایح سے مستفید کرتے رہیں گے،ان میں سے ایک واعظ گویا اور دوسرا واعظ خاموش،واعظ گویا قرآن ہے ،اور واعظ خاموش موت۔اگر آج ہم واعظ گویا سے درس لینا شروع کردیں تو ہمیں اپنے محلوں میں محفل وعظ منعقد کرنے کی ضرورت نہیں،قرآن پاک کے معانی اور مطالب کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو قدرت خود بخود ذہن کے دروازوں کو کھول دےگی،اس کے برعکس اگر ہم نے قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی یا ہم نے اسے صرف خیروبرکت کے حصول کی ایک کتاب تصور کیا تو پھر ہم اس سے ہدایت حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ایک روز چند صحابہ کرام ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرتے ہیں: یا ام المومنین،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان فرمائیں۔حضرت عائشہ صدیقہ نے جواب میں فرمایا کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟قرآن الفاظ اور عبارت ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اس کی عملی تفسیر ہے۔صحابہ کرام،تابعین کرام،محدثین،اولیاءکرام نے پیغمبر کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھ کر زندگی گزاری، مگر آج زندگی بسر کرنے کا ہمارا طریقہ کار کیا ہے؟پیغمبر اسلام محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مقدس سیرت سے لے کر بزرگان دین کی زندگیوں کے حالات پڑھ ڈالیں اور پھر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ ہم اپنی زندگی کس طرح گزر بسر کررہے ہیں؟ ہمارے رہن سہن کے اطوار کیا ہیں؟ہمارے آداب زندگی کا معیار کیا ہے؟ہمارے روزمرہ کے معاملات کے طور و طریقے کیا ہیں؟زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے اور معمولی گوشے میں بھی ہمیں اسلاف اور اکابرین کی جھلک کہیں بھی نظر نہیں آتی،تو بھلا پھر صراط مستقیم کی ہدایت کیسے ملے گی؟ ہمارا شمار تو ان لوگوں میں ہوگیا ہے جو مغضوب اور معتوب کے شکار ہوئے۔اسلام سے پہلے اہل مکہ اور اہل عرب کا شمار جاہل ترین قوموں میں ہوتا تھا،مگر جب وہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے، جب انھوں نے قرآن پاک سے اپنا ناطہ جوڑا،جب وہ قرآن کریم کے حقائق اور معاون دریافت کرنے کی کوشش کرنے لگے تواللہ نے ان کی کایا پلٹ دی،عرب کی تاریخ کو بدل کے رکھ دیااور جہاں بانی کے مرتبے پر پہنچ گئے۔اس کے برعکس آج ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حامل قرآن ہیں ۔درحقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید سے رستہ توڑدیا ہے،اسی لئے آج دنیا میں ہم ذلیل ہورہے ہیں۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور ہم خوار ہوۓ تاریک قرآن ہوکر
افسوس اس بات کا ہے کہ وہ قرآن، جس کی تعلیمات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک تھی ،وہ قرآن جس کی تعلیمات کو حاصل کرنے میں صحابہ کرام نے اپنی عمر عزیز کا ایک حصہ بتادیا،اسی قرآن کو ہدایت کا سرچشمہ سمجھنے کے بجائے ہم اسے صرف خیروبرکت کی ایک کتاب سمجھتے ہیں۔زندگی کے مسایٔل سے قرآن کا تعلق صرف اسی قدر رہ گیا ہے کہ نزع کے وقت اسکی تلاوت سے جاں کنی کی سختیوں کو آسان کیا جائے اور بعد از مرگ اس کےذریعہ سے متوفی کو ثواب پہونچایا جاۓ۔قرآن کریم سے ہماری اس دوری پر اظہار افسوس کرتے ہوئے علامہ اقبال نے دردمندی کے لہجے میں فرمایا تھا۔
’’دنیا میں سب سے مظلوم کتاب قرآن ہے کہ مسلمان اسے بے سمجھے پڑھتے ہیں۔‘‘
ہماری زندگی سے تعلق رکھنے والے معمولی سوالوں کے جواب قرآن حکیم میں موجود ہیں،اور ان کی وضاحت اور صراحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے ہوتی ہے، اسلام کے احکام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جو تعلیمات انسانوں کو پہونچائی گئیں،قرآن پاک ان کا مجموعہ ہے۔بحیثیت ایک پیغمبر کے محمد عربیؐ کی سیرت مبارک درحقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر ہے۔جو حکم آپ ؐپر اتارا گیا، آپؐ نے خود اس کو کر کے دکھایا ،ایمان ،توحید،نماز ،روزہ،زکوہ،حج،صدقہ وخیرات،جہاد،ایثار،قربانی،عزم،صبر،شکرکے علاوہ حسن عمل اور حسن خلق کی باتیں جس قدر آپؐ نے فرمائیں، ان کے لئے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نمونہ پیش کیا،جو کچھ قرآن میں تھا، وہ سب مجسم ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آیا۔آج بھی قرآن میں سب کچھ ہے، مگر اسکی ایک ادنیٰ سی جھلک بھی ہمیں اپنی زندگی میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی،کیونکہ ہم نے اس کتاب عظیم کو طلب ہدایت کے اعتبار سے پڑھا ہی نہیں۔اسی کے نتیجے میں ہمارے دل زنگ آلود ہوگئے ۔
Contact:7006760695
[email protected]