ہمسایوں کی دلجوئی۔اسلامی معاشرت کا سنہرا باب حقوق

 مفتی رفیق احمد قادری

اچھے پڑوسی خدا تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔ ہمسایہ اگر بدقماش ہوجائے تو سمجھ جائے اس سے بڑی کوئی آزمائش نہیں ہوسکتی۔ جس طرح اسلام رشتوں کو نبھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی طرح ہمسائیگی کے حقوق کی بھرپور رعایت کی بھی تاکید کرتا ہے۔ پڑوس اور ہمسائیگی انسان کی انفرادی، سماجی اور اجتماعی زندگی پر کافی اثر انداز ہوتی ہے۔ جس کے پڑوسی نیک اور صالح ہو تو انسان کی زندگی کافی خوشگوار ہوتی ہے اس کے برعکس اگر پڑوسی جھگڑالو، بدمعاش، فسادی اور فحش گو ہوجائے تو اس انسان کی زندگی کا پورا چین ستیناس اور زندگی کا پورا سکون غارت ہوجائے گا۔ انسان اگر ملنسار، ہمدرد، غمخوار اور خیر خواہ ہو تو اس کا پڑوسی بھی کچھ یوں ہی ہوگا۔ ہمارے بد اخلاقی اور بد اطواری ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے پڑوسیوں کے اخلاق بھی بگڑ گئے۔اخلاقیات اور حسن معاشرت کا باب کافی کشادہ ہے اور آج ہمارا عنوان وہ ہے بھی نہیں۔ ہمسائیگی اور پڑوس کے حقوق کا پاس ولحاظ اور حق تلفی اور حقوق کی پامالی سے اپنے آپ کو حفاظت کرنا ہر انسان کا سماجی فریضہ ہے۔ اسی وجہ سے اسلام جہاں حقوق العباد کی بات کرتا ہے وہیں پڑوس اور ہمسائیگی کے حقوق کی تاکید بھی کرتا ہے۔ ہمسائیگی میں مؤمن کافر کا فرق نہیں ہے۔ اگر پڑوسی غیر مسلم بھی ہو تب بھی اس کے حق کا پاس ولحاظ کرنا ضروری ہے۔ جیسے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم پڑوسی کا اکرام بجا لاؤ، چاہیے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔(ادب المفرد)
پڑوسی کو پریشان کرنے والے کے بارے میں آقائے نامدارؐ نے تین مرتبہ قسم کھاکر فرمایا خدا کی قسم وہ مومن نہیں ،خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں۔ صحابہ نے دریافت کیا، کون یا رسول اللہؐ! تو آپ نے فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور اسے شر انگیزیوں سے محفوظ نہیں۔ (مسلم) اتنا ہی نہیں اگر پڑوسی بھوکا ہو اور وہ مسلمان شکم سیر ہوکر سوئے، اس کے بابت محسن کائناتؐ فرماتے ہیں کہ مومن وہ نہیں جو خودشکم سیرہو اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے اور وہ اس کے بھوکے ہونے سے باخبر بھی ہو۔ (الطبرانی فی الکبیر) محسن انسانیت ؐ نے ارشاد فرمایا: کہ جبریل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت و امداد کی اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسیوں کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کردیا جائے گا(مسلم وبخاری) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ، میرے دو پڑوسی ہیں ،میں ان میں سے کس کو پہلے یا زیادہ ہدیہ بھیجوں؟ آپؐ نے فرمایا ،جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔ (مشکوٰۃ) حضرت ابوذر غفاریؓکو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جب تم سالن بناؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے ہمسایوں کی خبر گیری کرو، یعنی صرف اپنی لذت کے پیش نظر سالن نہ بناؤ بلکہ ضرورت مند ہمسایوں کا بھی خیال رکھو اور ان کے گھر بھی سالن بھیجو (مسلم) کتنے لطیف پیرائے میں حضور سرور کونینؐ نے پڑوس میں بسنے والے انسانوں کے حقوق بیان کیا۔ انہیں ہدیہ بھیجتے رہے۔ سالن پکاؤ تو اس میں پانی ملاکر اپنے پڑوسیوں کو بھی اس میں حصے دار بناؤ۔ پڑوسیوں کو دینے میں کسی ادنی شئی کو بھی کم تر وحقیر نہ جانو۔انسانیت اسی کو کہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے تھے ،اسی وجہ سے آپؐ ہمیشہ انسانیت کا درس دیا کرتے تھے۔ خود بھی ان تعلیمات پر عمل کرتے اور امت کو بھی تعلیمات کی تلقین کرتے۔ احادیث کی کتب ان واقعات سے بھری پڑی ہیں کہ آقائے دوجہاںؐ کا پڑوسی غیر مسلم بھی رہا، تب بھی اس کے حقوق کو آپ بجا لاتے۔ بیمار ہو جائے تو اس کی خبر گیری کرتے اور اس کی تیمارداری کرتے ہوئے اس کی ضرورتوں کی تکمیل کرتے۔ اتنا ہی نہیں اپنے جانثار صحابہ کو وقت فوقتاً اس بات کی تلقین کیا کرتے تھے کہ پڑوسیوں کا ہمیشہ خیال کرو جیسے کہ ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ بن حیدہؓ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا،’’پڑوسی کا تم پر یہ حق ہے کہ اگر پڑوسی کسی بیماری میں مبتلاء ہوجائے تو اس کی عیادت و خبر گیری کرو، اگر اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو اوراگر کسی ضرورت وغیرہ سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو اور اگر کوئی بُرا کام کربیٹھے تو پردہ پوشی کرو اور اگر اس کو کوئی نعمت ملے تو مبارک باد دو اور اگر کسی مصیبت کا شکار ہوجائے تو تعزیت کرو اور اپنی عمارت کو اس کی عمارت سے اس قدر بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجائے ۔(معجم الکبیر للطبرانی)
اب ایک واقعہ سنئے اور لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے اخلاق وکردار اور پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات کا جائزہ لیجیے ۔’’ عبداللہ بن مبارک ؒ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا، یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا۔ ایک آدمی نے پوچھا کتنے میں فروخت کروگے، کہنے لگا کہ میں دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا۔ اس خریدار نے کہا کہ اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے۔ یہودی کہنے لگا کہ ہاں ٹھیک ہے ،ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے (نزہۃ المجالس) پھر جب اس کی خبر حضرت عبداللہ بن مبارک کو ملی تو آپ نے اس یہودی پڑوسی کو گھر فروخت کرنے سے منع فرمایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس کی ہدایت کے لیے دعا فرمائی اور اللہ نے اس دعا کی برکت سے اس یہودی کو اسلام جیسے لا زوال نعمت سے مالامال فرمایا اور وہ حلقہء بگوش اسلام ہوگیا۔
اب اس پڑوسی کا بھی واقعہ سن لیجئے جس نے پڑوسی کے خاطر اپنے حج کو بھی ملتوی کردیا ۔تاریخ میں مرقوم ہے کہ حضرت احمد بن اسکاف دمشقیؒ نے حج بیت اللہ کے ارادے سے کئی سال میں ایک خطیر رقم جمع کی۔حج سے چند دن پہلے انہوں نے ہمسایہ کے گھر میں اپنے بیٹے کو کسی کام سے بھیجا۔تھوڑی دیر بعد وہ منہ بسورتا ہوا واپس آیا۔ابن اسکافؒ نے پوچھا،بیٹے خیر تو ہے،تم روتے کیوں ہو؟اس نے کہا،ہمارے پڑوسی گوشت روٹی کھا رہے تھے،میں منہ دیکھتا رہا اور انہوں نے مجھے پوچھا تک نہیں۔ابن اسکافؒ رنجیدہ ہوکر ہمسائے کے گھر گئے اور کہا سبحان اللہ،ہمسایوں کا یہی حق ہوتا ہے جو تم نے ادا کیا۔میرا کمسن بچہ منہ تکتا رہا اور تم گوشت روٹی کھاتے رہے،اس معصوم کو ایک لقمہ ہی دے دیا ہوتا۔یہ سن کر پڑوسی زار زار رونے لگا اور کہنے لگا،ہائے افسوس اب ہمارا راز فاش ہوگیا۔ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔خدا کی قسم، پانچ دن تک میرے گھر والوں کے منہ میں ایک دانہ تک نہیں گیا،لیکن میری غیرت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی تھی،جب نوبت ہلاکت تک پہنچی تو ناچار جنگل گیا،ایک جگہ مردہ بکری پڑی تھی،اس کا تھوڑا سا گوشت لے لیا اور اسی کو اُبال کر ہم کھارہے تھے،یہی سبب تھا کہ ہم نے آپ کے بچے کو کچھ نہ دیا،ورنہ یہ کب ہوسکتا تھا کہ ہم گوشت روٹی کھائیں اور آپ کا بچہ منہ تکتا رہے۔یہ سن کر احمد بن اسکافؒ پر رقت طاری ہوگئی۔بار بار کہتے کہ اے احمد تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے گھر میں تو ہزاروں درہم ودینار پڑے ہوں اور تیرے ہمسایوں پر فاقے گزررہے ہوں۔قیامت کے دن تو اللہ کو کیا منہ دکھائے گا اور تیرا حج کیسے قبول ہوگا؟پھر وہ گھر گئے اور سب درہم ودینار جو حج کی نیت سے جمع کیے تھے،چپکے سے لاکر باصرار ہمسائے کو دے دیے اورخود اپنے گھر میں بیٹھ کر یاد الٰہی میں مشغول ہوگئے۔اس طرح کے تاریخ اسلام میں بے شمار واقعات ملیںگے کہ ہمارے اسلاف نے کس طرح پڑوسیوں کے حقوق بجالائے اور ان کا اکرام واحترام کیا۔ اسی حسن اخلاق کا نتیجہ وثمرہ کہئے کہ لوگ ان صوفیہ کی زندگی دیکھ کر اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ آج ہم بھی ہیں کہ ہمارے اونچے کردار و بلند اخلاق کی وجہ سے کوئی ہمارے پڑوس میں رہنا تو دور ،ہم جس محلے میں رہتے ہیں اس محلے میں بھی کوئی رہنا پسند نہیں کرتا۔ جس پیغمبر اسلام کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں اور ان کی محبت کا دم بھرتے ہیں کبھی ہم نے ان کے اخلاق کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آخر میں اس عظیم بزرگ کے بارے میں کہہ کر اپنی بات کو سمیٹتا ہوں کہ سرزمین ملیبار میں ایک عظیم صوفی محی السنہ عاشق رسولؐ گزرے ہیں۔ جن کا نام علامہ محی الدین مسلیار ہے لیکن پیار سے اہل کیرالا انہیں اتیپٹّا استاذ کے نام سے پہچانتے ہیں۔جن کی پاکیزہ زندگی نو نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی زندگی کا وطیرہ تھا کہ جب بھی وہ اپنے گھر کے لیے کچھ خریدتے تو ان کے پڑوس میں رہنے والے غریب ہندو پڑوسی کے بھی وہی چیزیں خریدتے جو گھر کے لیے خریدتے اور کسی کو معلوم کئے بغیر وہ سامان اس پڑوسی کے گھر خود پہنچا تےتھے۔ یہ آپ کی زندگی کا معمول تھا کسی کو اس کار خیر کی بھنک تک نہیں تھی۔ جب آپ اس دار فانی سے دار باقی کا سفر کیا۔ تب یہ راز فاش ہوا۔ وہ ہندو پڑوسی میڈیا کے سامنے آیا کر بیان کیا۔ تب سب کے ہوش اڑ گئے۔ ان کے خدام کو تک اس چیز کی اطلاع نہیں تھی۔ یہ تھے ہمارے اسلاف۔معاشرے کو پُر سکون اور پراَمن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل پائے گا۔
[email protected]>