ہمارے بچے مساجد سے دُور کیوں؟ فکر انگیز

محمد زاہد قمر

چھوٹا بچہ گھر میں جب امی اور ابو کو نمازپڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے دل میں بھی ویسا کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ وہ بغیر کہے مصلے کے ساتھ آکر کھڑا ہو جاتا ہے ،رکوع و سجود کی نقل اُتارتا ہے۔ بالکل سنجیدگی کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہے جیسا وہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔پھر وہ اپنے ابو کو مسجد میں جاتے دیکھتا ہے۔ وہ بھی چاہتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ وہاں جاؤں اور بغیر کہے وہ پیچھے پیچھے مسجد چلا جاتا ہے۔کبھی گھر سے کوئی نہ بھی جائے تو وہ خود مسجد پہنچ جاتا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہاں آکر لوگ کیا کرتے ہیں ،یہاں لوگ جمع کیوں ہوتے ہیں۔وہ مسجد آتا ہے لیکن اسے مسجد کے آداب کا علم نہیں ہوتا، وہ یہاں بھی گھر کی طرح دوڑتا بھاگتا ہے، شرارتیں کرتا ہے، کبھی اس صف میں جاتا ہے کبھی دوسری صف میں ، کبھی وضو خانے پر آکر دوسروں کی طرح منہ ہاتھ دھوتا ہے ،وہ بھی ٹونٹی کھولتا ہے اور ویسا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ ٹونٹی کھول بیٹھتا ہے۔ کافی دیر تک ہاتھ پاؤں دھوتا رہتا ہے۔کیونکہ اُسے ایسا کرنے میں مزا آتا ہے، اسے اچھا لگتا ہے وہ بھی دوسروں کی طرح ’’بڑے بڑے‘‘کام کرنا چاہتا ہے، اور وہ ان تمام کاموں میں بالکل سنجیدہ ہوتا ہے۔ دل سے کرتا ہے اپنی طرف سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دل میں خوشی محسوس کرتا ہے۔
لیکن کوئی بابا جی اُسے وضو خانے پر جھڑکتے ہیں،اوئے ادھر کیا کر رہے ہو،اتنی زیادہ ٹونٹی کیوں کھولی ہے؟اتنی دیر سے پانی ضائع کر رہے ہو،چلو اُٹھو دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ ‘‘ بعض اوقات تو ہاتھ سے پکڑ کر گھسیٹ کر اُسے وہاں سے نکال دیتے ہیں۔ بعض بابے اُسے کھینچ کر مسجد سے نکال دیتے ہیں۔بعض مساجد کے بزرگ تو بچوں کو دیکھتے ہی اُن کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور جب تک وہ مسجد سے نکل نہیں جاتے یا اُن کی مرضی کے مطابق ٹک کر نہیں بیٹھتے اُنہیں چین نہیں آتا۔
کچھ نمازی تو ایسے ہیں کہ بچے دیکھ کر ہی غصے میں آجاتے ہیں ۔ صف میں بیٹھے دیکھا تو قمیض سے پکڑ کر پیچھے کر دیا۔ کسی بچے کو باتیں کرتا دیکھا تو جا کر ایک تھپڑ لگا دیا’’بدتمیز یہ مسجد ہے چپ کرو‘‘ وہ نماز پڑھتے ہوئے ہل رہا تھا تو نماز کے دوران یا بعد میں سرعام تذلیل کر دی جاتی ہے۔ جہاں دو تین بچے اکٹھے بیٹھے باتیں کرتے یا ہنستے دیکھے فوراً انہیں مسجد سے باہر نکال دیا جاتا ہے کیونکہ مسجد کا ماحول ’’خراب‘‘ ہوتا ہے۔ وہ قرآن پکڑتا ہے تو چھین لیا جاتا ہے کہ چھوٹا بچہ ہے قرآن پھاڑ دے گا۔ کوئی بچہ صاف ستھرا نہیں تب بھی دھکے دے کر مسجد کے دروازے پر کر دیا جاتا ہے۔
یہی صوتحال خواتین کے ہال میں بچیوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اس سب کچھ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے،ہماری مساجد بچوں سے خالی رہتی ہیں حالانکہ انہی بچوں نے تو کل جواں ہو کر پختہ نمازی بننا تھا ’’لیکن !افسوس ان غنچوں پر جو بِن کھلے مُرجھا گئے‘‘۔
دوسرا سبب مساجد کے قاری صاحبان ہیں کہ جن کے پاس بچے سپارہ / قاعدہ پڑھنے آتے ہیں ۔ اب یہاں بھی ’’نظم و ضبط‘‘ کا ’’عظیم مسئلہ‘‘ سامنے آتا ہے۔ خوف اور جبر کا ماحول! ہر غلطی پر سزا، ہر بار سبق یاد نہ ہونے پر بے عزتی اور مارکٹائی۔ قاریوں اور نمازیوں کے ان رویوں نے ہماری مساجد کو بے رونق کر رکھا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی بچے ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ کبھی اس صف میں دوڑ کبھی اس صف میں کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چڑھ گئے ۔ کبھی سجدے میں آپ ہیں تو آپ کی پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگے۔ کبھی منبر پر چڑھ گئے ،کبھی رونے لگے کبھی کچھ کبھی کچھ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ کیا تھا۔
سر سجدے میں ہے تمام صحابہ بطور مقتدی بھی سر بسجود ہیں۔ سجدہ طویل ہو گیا طویل سے طویل تر۔ صحابہ کے دل میں مختلف خیالات آرہے ہیں کہ آج اللہ خیر کرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر سجدے سے کیوں نہیں اُٹھا رہے۔ بہت دیر بعد سر اُٹھایا ،نماز مکمل کی، سلام پھیرا صحابہ کو متفکر پایا تو فرمایا بات دراصل یہ تھی کہ ایک بچہ میری پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگا، میں نے اُسے اُتارنا مناسب نہیں سمجھا، جب وہ خود ہی اُترا تو پھر میں نے سر اُٹھایا ۔ کتنی عزت کتنا احترام مسجد میں نماز کے دوران بھی ایک بچے کے کھیل یا اُس کی شرارتوں کا!
بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مختصر کر دیا کرتے تھے۔ لیکن یہ کبھی نہیں کہتے تھے کہ لوگو یا عورتو ! اپنے بچوں کو مساجد میں نہ لایا کرو۔ اس سے ہماری نمازیں خراب ہوتی ہیں۔کیا ہماری نمازوں کا خشوع و خضوع نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام کی نمازوں سے زیادہ ہے،کہ جو کسی بچے کی آواز پر فوراً خراب ہوجاتا ہے۔ بلکہ آپ تو لوگوں کو کہتے کہ عورتوں کو مساجد میں آنے سے نہ روکو۔ اب عورتیں آئیں گی تو اُن کے ساتھ بچے بھی آئیں گے اور وہ ہنسیں گے بھی روئیں گے بھی۔تو کیا کیا جائے۔برداشت کیا جائے اپنے اندر صبرو تحمل پیدا کیا جائے۔
لیکن ہم جوں جوں پہلی دوسری صف کے پختہ نمازی بنتے جاتے ہیں ،ہمارا مزاج اتنا ہی سخت ہوتا چلاجاتا ہے، اتنا ہی تکبر آجاتا ہے مزاج گرم ہوجاتا ہے۔ یہ کیسی عبادت ہے؟
اس کا نتیجہ تو دل کی نرمی کی صورت میں نکلنا چاہیے۔اچھے اخلاق ، نرم گفتگو بچوں سے محبت کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔
〰ہوناتو یہ چاہیےکہ ہم بچوں کو مساجد میں آنے کی ترغیب دیں۔کوئی بچہ مسجد آئے اس کا استقبال کریں،اُسے گلے لگائیں، اُسے بوسہ دیں، اُسے اتنی محبت، اتنا پیار، اتنی عزت و احترام دیں کہ اُسے لگے کہ دنیا میں اس سے بہترین جگہ کوئی نہیں، ایسے اعلیٰ لوگ کہیں نہیں۔اُس کی شرارتوں، غلطیوں ، باتوں، اچھلنے کودنے کو برداشت کریں،اور کبھی سمجھائیں تو علیحدگی میں نرمی اور شفقت سے اسطرح کہ اُس کی عزتِ نفس محفوظ رہے۔غصے کی بجائے مسکرائیں اور اُنھیں دیکھ کر اپنے بچپن کو یاد کریں کہ ہم سب بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔بچے شیطان نہیں ہوتے بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔غیر مکلف ہوتے ہیں، لیکن ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں دیکھ کر کچھ سیکھنا چاہتے ہیں وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔وہ ان مساجد سے جڑیں گے تو کل زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائیں گے تو مساجد کو اعلیٰ مقام دیں گے، مساجد کے اماموں قاریوں کو عزت دیں گے،علماء کا احترام کریں گے بلکہ خود بھی عالم بنیں گے، وہ دنیا کے دیگر اداروں کی بجائے مساجد کو بنیادی مقام دیں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے تو درکنار کسی بڑے انسان کے مسجد میں پیشاب کرنے کو بھی برداشت کیا اور لوگوں کو اُسے مارنے یا ڈانٹنے سے منع کیا ۔ پھر اُسے بلا کر شفقت سے سمجھایا کہ مساجد نماز کی ادائیگی کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ ایسے کاموں کے لیے ، وہ اس سلوک سے اتنا متاثر ہوا فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔
کیا آج ہم کسی غیر مسلم کے لیے اپنی مساجد میں اتنی برداشت اور حوصلہ رکھتے ہیں،کم از کم مسلمان بچوں کے لیے تو پیدا کریں۔آئیے مساجد اور اپنے دلوں کے دروازے بچوں کے لیے کھول دیجیے۔یہی هماری ذمے داری ہے۔
(رابطہ۔9801681398)
<[email protected]>