ہمارا تعلیمی نظام بچوں کو راس آتا ہے؟ فکر و ادراک

بشیر اطہر
یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ اکثر بچے جب اسکول آتے ہیں تو انہیں ڈر سا محسوس ہوتا ہے ،اساتذہ کی لاڈ پیار کے باوجود وہ اسکول آنے سے کترا رہے ہیں ،جس سے ان کے ذہنوں پر سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں اور وہ بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں، اس میں نہ ہی اساتذہ کو قصور وار ٹھہرایا جائے اور نہ ہی بچے کا کوئی قصور ہوتا ہے، قصور اگر ہے وہ ہے تعلیمی ڈھانچے کا،کتابوں کا یا برسوں پرانے اس سسٹم کا جس کی ہم پیروی کرتے ہیں۔ایک فلسفیانہ قول ہے کہ بچہ اسکول کی طرف دوڑ کرآئے اور گھر کی طرف بالکل آہستہ جائے، اگر اس قول کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو یہ بات نکلتی ہے کہ اسکول کے ڈھانچے سے لیکر کتابوں یہاں تک کہ اساتذہ بھی ایسے ہونے چاہیے کہ بچے کو اپنے والدین اور گھر سے زیادہ پیار اسکول اور اساتذہ سے ہونا چاہیے،جب مجھے آج بھی اپنے اسکول کاوقت یاد آتا ہے تو مجھے تھرتھراہٹ سی محسوس ہوتی ہے کیونکہ مجھے اس وقت اپنا اسکول ایک قیدخانے سے کم نہیں لگتا تھا اور ہے بھی ۔فرق بس اتنا ہے کہ قید خانے میں قیدی کھانا، پینا اور سونا جاگنا سب کچھ کرتا ہے مگر اسکول میں بچےکو چھ گھنٹے رہ کر سب کچھ سہنا پڑتا ہے اساتذہ کی ڈانٹ، کتابوں کی بھرمار، پروفیسروں اور لیکچراروں سے مرتب کردہ نصاب غرض اسکول کاہر کام قیدخانے سے ملتا جلتا ہے۔ تعلیمی شعبے سے وابستہ ماہرین تعلیم کو چاہیے کہ وہ اسکولوں کے ڈھانچے، نصاب میں جدت اور اساتذہ کو اس طرح لیس کریں تاکہ بچے اس سب سے خوش ہوکر اسکول کی طرف دوڑ کر آئیں، اسکول کی عمارت،کھیل کا میدان اور ارد گرد دلکش بنانے کی ضرورت ہے ،کتابیں دیدہ زیب ہونی چاہیے تاکہ بچے کو ان سب چیزوں سے پیار ہوجائے۔ جب تک بچے کو ان چیزوں سے پیار نہ ہوجائے تب تک بچے کو لگے گا کہ اس کو اسکول پڑھنے نہیں بلکہ سزا پانے کےلئے بھیجا گیا ہے۔ حقیقت میں اسکول سزا دینے کی جگہ نہیں ہے مگر بچہ کو اسکول میں قدم رکھتےہی لگتا ہے کہ شاید مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے، اسی لئے سزا پانے کےلئے اسکول بھیج دیا گیا ہے۔یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اسکول میں دوستانہ ماحول قائم کرنے سے بچہ اسکول نہیں آسکتا بلکہ وہاں کا سبھی ڈھانچہ دوستانہ ماحول میں ہونا چاہئے۔یہ ایک حیران کن بات ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں رہ رہے ہیں مگر پھر بھی ہم اپنے بچوں کو کتابوں کے بوجھ تلے دبا لیتے ہیں اور اس کےلئے ہمارے ماہرین تعلیم کوئی متبادل حل نہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم آج بھی صدیوں پرانا چل رہا نظام تعلیم جس میں ہمارے بچے تعلیم کی رٹ لگاتے ہیں ،ہمارے بچوں کےلئے دردسر معلوم ہورہا ہے۔ کئی روز پہلے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بُک پر ایک ویڈیو اَپلوڈ ہوا، جس میں ہمیں امریکہ کے ایک پرائمری اسکول کی سیر کرائی گئی ہے۔اگر اس ویڈیو کے تہہ تک جانے کی کوشش کریں گے تو پھر ہمارا نظام تعلیم لگ بھگ ستر سال پیچھے ہے ،وہ ویڈیو دیکھ کر ہماری عقل دھنگ رہ جاتی ہے کیونکہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہاں پرائمری اسکول میں اگر اتنا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے تو ایک مڈل اسکول یا ہائر سیکنڈری میں کتنا ہوگا،اور یہاں ہمارے پاس پرائمری اور مڈل اسکولوں کی بہتات ہے مگر وہ یا تو کھلے میدانوں میں چلتے ہیں یا پرائیویٹ عمارتوں میں ان کا کام چل رہا ہے اور اگر کہیں پر عمارت بھی بنی ہوئی ہے، وہ خستہ حالت میں ہے ۔سرکار کواس پر تعلیمی ڈھانچے کی بحالی کیلئے باقی شعبوں سے زیادہ بجٹ رکھنے کی ضرورت ہے۔ہمارا تعلیمی نظام بھی باقی ممالک کی طرح جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونا چاہیے اور کتابیں زیادہ تر الیکٹرانک فارمیٹ میں ہی ہونی چاہیے ۔اگر ایسا ہو تو مجھے لگتا ہے کہ بچے کو اسکول سے پیار ہوجائے گا اور ایک بات یہ ہے کہ یہاں بچوں کی کونسلنگ ہونی چاہیے اور بچے کو جس بھی فیلڈ میں ،جس بھی فیلڈ میں جانے کی دلچسپی ہو ،اُسی فیلڈ میں اس کو داخلہ ملنا چاہیے تھا اور اس کےلئے اساتذہ کو بھی تربیت یافتہ ہو نا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ جو اس وقت کا تعلیمی نظام ہے ،وہ ناقص ہے کیونکہ ہم ہر ایک بچے کی صلاحیت کو ایک ہی پلڑے میں تولتے ہیں اور ہر ایک بچے کو وہی اسباق یاد کراتےہیں، جو کئی بچوں کےلئے عدم دلچسپی کے باعث ہوتے ہیں۔ آج کل کانظام تعلیم بالکل اسی اسپتال کے مانند ہے، جس میں ہر قسم کے مریض کو ایک ہی دوائی مثلاً سردرد کی دی جاتی ہے، جس سے ان مریضوں کی سردرد میں تھوڑی سی راحت تو ملتی ہے جن کو سردرد ہوتا ہے مگر جو دل کے یا اور کسی کے مریض ہیں ان کو سردرد کی گولی کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اسی طرح جو بچے میکانیکل میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کو اگر تھیوری پڑھائی جائے تو ان کو وہ بورنگ لگتا ہے کیونکہ وہ تھیوری میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں بلکہ پریکٹیکل میں دلچسپی لیتے ہیں اسی طرح جن طالب علموں کو تھیوری میں دلچسپی ہوتی ہے وہ پریکٹیکل میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ،اس لیے تعلیم کا قبلہ اس وقت درست کرنے کی سب سے زیادہ اہم ضرورت ہے۔ ہمارے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو بچے کے لیول کے برابر کام کرنا چاہیے جب کہ وہی ماہرین تعلیم نصاب بنا کر اس لیول کو چھوتے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے لیول کے حساب سے سوچ کر سیلیبس بناتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سرکاری اسکولوں میں چل رہا نصاب تعلیم اتنا سخت ہے کہ ایک بہت بڑا پڑھا لکھا بھی دھنگ رہ جاتا ہے۔ اول درجے جو سرکاری اسکولوں کا بنیادی درجہ ہوتا ہے کی انگریزی کتاب سے لیکر آپ دسویں جماعت کے انگریزی کتاب تک اگر آپ بھی مشاہدہ کریں گے تو آپ کو صرف ایک بات نظر آئے گی کہ ان کتابوں میں نصاب تیار کرنے والوں نے پہاڑی علاقوں میں زیر تعلیم بچوں کی صلاحیت کے مطابق نصاب تیار نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے اپنے بچوں کی صلاحیت کے مطابق جو بڑے بڑے پرائیویٹ اداروں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں، انہی کی لیول کو حساب سے سیلیبس تیار کیا ہے۔ اسی طرح حساب کی کتابوں سے لیکر سائنس کی کتاب تک سب نصاب ناقص اور ناقابل برداشت ہے کیونکہ بچوں کو ان کتابوں سے بنیادی علم ملنے کے بجائے وہ علم مل رہا ہے جس سے اساتذہ بھی عاری ہیں۔ یہ میری باتیں صرف بناوٹی نہیں ہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ بنیادی جماعتوں کا نصاب ترتیب دینے میں پرائمری اور مڈل اسکولوں سے اساتذہ کو اگر لیا جائے تو قدرے بہتر رہے گا نہ کہ ان اساتذہ کو کام پر لگایا جائے جو کالج اور یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ ان کی رہنمائی ضروری ہے مگر نصاب تیار کرنے میں جتنا کارآمد مڈل اور پرائمری اسکولوں کے اساتذہ ثابت ہوں گے،اتنا کارآمد پروفیسر یا لیکچرر نہیں ہوں گے مگر یہاں ایک وبا نے کشمیریوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے وہ یہ کہ میرا نام کتاب پر ضرور آنا چاہیے ،وہ بھی ڈاکٹر، پروفیسر یا کسی اور کے نام کے ساتھ ۔دوسری بات یہ ہے کہ نصاب بنانا سرآنکھوں پر اگر یہی اساتذہ جنہوں نے نصاب تیار کیا ہے، اساتذہ کو بھی تربیت فراہم کرتے تو کتنا اچھا ہوتا کیونکہ محکمہ تعلیم میں سالوں سال تربیتی کیمپ لگ جاتے ہیں مگر وہ بھی تھیوری ۔اے کاش سلسلہ نصاب تعلیم کی عملی تربیت اساتذہ کو فراہم کی جائے تو یہاں کاتعلیمی نظام آج زوروں پر ہوتا۔اس لیے ابھی بھی وقت ہے کہ ہمارے ماہرین تعلیم سلسلہ نصاب سے لیکر اسکولی ڈھانچہ اور اساتذہ کی تربیت تک یعنی ہر سطح پر نظرثانی کرکے اپنے تعلیمی نظام کو احسن اور خوبصورت و دلچسپ بنانے کےلئے دن رات کام کریں تاکہ عام لوگوں کے بچے تعلیم کے نور سے پیچھے نہ رہیں۔
(رابطہ۔ 7006259067 )
[email protected]