ہر گھر بجلی… خواب ہنوز تشنہ تعبیر!

2020کے آخری ایام میں جموںوکشمیر انتظامیہ نے یوٹی کے ہر گھر تک بجلی پہنچانے کا دعویٰ کیا جس کے بعد اس کارنامہ کیلئے جموں وکشمیر انتظامیہ کو ملکی سطح پر اعزاز سے بھی نوازا گیا لیکن زمینی صورتحال اس کے عین برعکس تھی اور آج بھی بیسیوں دیہات جموںوکشمیر میں برقی روسے محروم ہیںاور آج بھی جب چناب یا پیر پنچال خطہ کے دور افتادہ دیہات کو بجلی کی سپلائی فراہم کی جاتی ہے تو وہ بڑی خبر بن جاتی ہے اور سرکاری مشینری اس کو ایک بڑی کامیابی کے طور پیش کرنے میں چوکتی نہیں ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر2020میں آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہر گھر تک بجلی پہنچ گئی تو آج آپ کس منہ سے مزید دیہات تک بجلی پہنچانے کے دعویٰ کرتے ہیں۔اس دور میں جب زندگی کے ہر شعبے میں اتنی ترقی ہوئی ہے، کئی علاقوں کو بجلی سے محروم رکھنا ناقابل تصور ہے۔

 

 

 

اس سے تمام دیہات کو بجلی فراہم کرنے کی حکومتی کوششوں کی شبیہ بھی متاثر ہورہی ہے اور حکومت کے وعدوں پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوتا ہے ۔حکومتی سطح پر کوتاہیاں یا تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے علاقے ابھی تک بجلی سے محروم ہیں اور ایسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت برقی رو سے محروم علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر تیزی سے بجلی فراہم کی جانی چاہئے ۔متعلقہ افسران کو کچھ دیر کے لئے کئی دنوں تک بجلی کے بغیر اپنی زندگی کا تصور کرنا چاہئے۔ ان کی زندگی، کام اور نظام الاوقات بری طرح متاثر ہوں گے۔ جن لوگوں کی حکومتی سطح پر کوئی رسائی نہیں، انہیں طویل عرصے تک بجلی سے محروم رکھنا اچھی بات نہیں۔وہاں طلباء کو بہت تکلیف ہو گی۔ سرکاری محکموں میں سست رفتاری سے کام کرنے کا انداز اب بدلنا ہوگا۔ اس انداز کی وجہ سے عام لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔بعض اوقات بعض دفاتر میں انہیں اپنے مسائل کے حل کا انتظار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ایسا رویہ بدعنوانی کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔عام لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے اعلیٰ حکومتی سطح پر کوششیں جاری ہیں لیکن یہ کوششیں زیادہ حد تک کامیاب جبھی ہو سکتی ہیں جب افسران اور دیگر ملازمین خلوص اور جذبے سے کام کریں۔سرکاری افسران کو ہمیشہ اعلیٰ حکام کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ وہ انہیں اپنے کام کے لئے جوابدہ بنائیں۔ انہیں خود بھی لگن اور ایمانداری سے کام کرنا چاہئے اور عوامی خدمت کو موثر طریقے سے کرنا چاہئے۔

 

 

 

آج کے جدید دور میں جو علاقے بجلی سے محروم ہیں،جب وہاں کی آبائی اپنے پڑوس میں برقی قمقمے چمکتا دیکھتی ہوگی تو وہ برامحسوس ضرور کرتے ہونگے کیونکہ وہ اس سلوک کے قطعی مستحق نہیں ہیں۔ظاہر ہے جب انسان سیاروں پر مسکن بنانے کی بات کررہا ہو ،تو اُس ماحول میں زمین پر لوگوں کو بجلی میسر نہ ہوناافسوسناک ہی قرار دیاجاسکتا ہے۔حالات کے ستائے ایسے لوگوں کی واحد امید کچھ عہدیداروں کی طرف سے یہ یقین دہانی ہے کہ ان کے گھرانوں کو بھی سردیوں کے بعد بجلی کی فراہمی ہوگی۔اب امید کی جاسکتی ہے کہ حکام اپنا وعدہ پورا کریں گے اور غیر ضروری طور پر اس مسئلے کو مزید برسوں تک نہیں کھینچیں گے۔جموں و کشمیر کے تمام غیر بجلی والے علاقوں پر مناسب توجہ دی جانی چاہئے اور ترجیحی بنیادوںپر وہاں بجلی کا بندو بست کیا جاناچاہئے۔عوام کو بھی ایسے مسائل کو اعلیٰ حکام کے ساتھ اٹھانا چاہئے اور ان کے حل ہونے تک اپنے مطالبات کو آگے بڑھانا چاہئے۔ دوسری طرف حکومت کو بھی سردیوں میں بجلی کی فراہمی والے علاقوں میں بہتر بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔کچھ دور دراز علاقوں میں بجلی کے سنگین بحران کی اطلاعات ہیں۔ اس مسئلے کو مزید موثر اقدامات سے حل کرنا ہوگاتاکہ جہاں بجلی کی سپلائی ممکن ہے ،وہاں معیاری بجلی فراہم ہوسکے اور جہاں بجلی ابھی تک نہیں پہنچی ہے ،وہاں بجلی فوری طور پہنچانے کا بندو بست ہوسکے۔